Saturday, May 13, 2017

میرا یہاں کون ہے؟

میرا یہاں کون ہے؟
کیوں میں یہاں آکر بس گئی ہوں؟ میرا یہاں کون ہے؟
کہتے ہیں عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا
سچ تو یہ ہے کہ عورت کا کچھ بھی نہیں ہوتا 
کوئی اپنا نہیں ہوتا
جو پیدا کرکے اس دنیا میں لاتے ہیں وہ خود دل پہ پتھر رکھ کر کسی کی ڈولی میں ڈال دیتے ہیں
ماں باپ کو ہمیشہ کیلیے پرایا کردو ہمیشہ کیلئے بھول جاؤ 
کیوں بھول جاؤں؟ کیوں پرایا کردوں ؟ 
جن کا نام سارا دن پکارتے تھے جو ہماری شکلیں دیکھ کر جیتے تھے 
اٌن سے ملنے کیلئے دن گننے پڑتے ہیں اجازتیں مانگنی پڑتی ہیں 
شادی کے بعد روز روز ماں باپ سے ملنا دنیا کا دستور نہیں
کیا ے تمہاری دنیا کا دستور؟ 
کسی کے دل کے ٹکڑے کو چھین لاؤ ،اپنا بناؤ 
اور اسکے اپنوں کو پرایا کردو؟
سسرال کیا ہوتا ہے آخر 
یہ عورت کی عزت ہوتا ہے اٌسکی چار دیواری ہوتا ہے 
مگر اس امتحان پر پورا اٌتر کر تو دکھاؤ 
کوئی ایک غلطی کرکے تو دکھاؤ 
ہر وقت آپکی ہر بات کو یہاں تولا جاتا ہے  پرکھا جاتا ہے 
آپ کی زبان سے نکالے ہر لفظ پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے
ارے تمہارے سسرال والے تو بہت اچھے ہیں
اچھے ہیں مگر کیا یہ اچھا ئی نیچرل ہے
کیا یہ اچھائی ہم عورتوں کے سر پر احسان نہیں 
کیا ہر پل اس بات کا اٌنہیں گمان نہیں کہ ہم اسکے ساتھ اچھے ہیں
کیا اب تم ہنستی کھیلتی نہیں 
کیا اب تم قہقہے مارتی نہیں 
ہاں میں یہ سب کرتی ہوں 
خود کو دبا دینے کیلئے خود کو بھول جانے کیلئے 
تم کنفیوز ہو ، تم کمزور ہو تم لاپرواہ ہو 
تم اچھی ماں نہیں 
ہاں میں اچھی ماں نہیں 
اور اگر میں ماں نہ ہوتی 
تو پھر میرا کون ہوتا
اگر میرا کوئی ہوتا تو کیا ماں نہ بننے پہ وہ مجھے طلاق دیتا؟
اگر یہاں میرا کوئی ہوتا تو کیا میری ساری جوانی محبت خلوص ایثار کے بدلے
مجھے کوئی سوتن لاکر دیتا 
مگر یہی تمہاری دنیا کا دستور ہے
وہ عورت جسکی اولاد نہ ہو اسکا کوئی نہیں ہوتا 
مگر میری اولاد تو تھی مگر کیا تمہارا بیٹا تھا؟
بیٹے کی خاطر مجھ سے بیٹیوں کی لائن لگوانے والے 
کیا یہ سب میرے اپنے ہیں؟۔۔
میں نے کمر باندھ لی بیٹیوں کا بوجھ اٌٹھانا ہے
باپ نے بیٹے کی خاطر دوسری شادی کرلی ہے 
مجھے دن رات محنت کرنی ہے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنی ہے 
مگر میرا کوئی اپنا ہوتا تو کیا مجھے یہ دن دیکھنے پڑتے؟
جب شادی کے دس سال بعد اولاد نہ ہونے پر اٌس نے مجھے واپس بھیجا تھا
جاؤ اپنے اپنوں کے پاس چلی جاؤ بانجھ عورت 
تو تم کون تھے جسے میں اپنا سمجھتی آئی تھی 
تم میرے اپنے نہیں تھے؟
نہیں اپنی تو تمہاری ماں تھی تمہارا باپ تھا جو تمہیں بانجھ ہونے کے باوجود 
گلے سے لگا لیتے
مگر میرے وہ اپنے تو ایڑیاں رگڑ کر مر گئے دس سال اور جی لیتے
اگر اٌنکی کوئی خدمت کرلیتا مگر میں روز روز اٌنکی خدمت کو کیسے جاتی 
یہ دنیا کا دستور نہیں تھا میرے بہن بھائی سب اپنے اپنے گھر بسا چکے ہیں
میرے تو دو ہی اپنے تھے مگر تمہارے ماتھے کے شکن دیکھ کر میں نے اٌن اپنوں کو چھوڑ دیا 
یہاں سب رشتے قانونی ہیں 
رشتے توخون کے ہوتے ہیں دل کے کونسے رشتے؟
جن کے پاس ایک نرم محبت کرنے والا دل نہ ہو اٌن کے ساتھ کیسے رشتے
اگر کوئی میرا اپنا ہوتا تو کیا وہ باربار مجھے حمل گرانے کی گولیاں کھلا کھلا کر میری جان لیتا؟؟
کیا اگر وہ میرا اپنا ہوتا تو میرے دنیا سے جانے کے کچھ ہی دن بعد دوسری شادی کرلیتا؟ 
جسکی پسند کے کھانے پکا پکا کے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑے اگر وہ میرا ہوتا
تو کیا میرے مرنے پر اٌسکی آنکھ ایک آنسو بھی نہ گرا ہوتا
میرا کوئی بھی نہیں تھا
مجھ سے نفرت کرنے والی ماؤں نفرت کرنا نہ چھوڑنا 
تمہاری بیٹیوں کو بھی نفرت کرنے والی مائیں ملتی رہے گے 
میں بھی اپنی کسی بیٹی سے نفرت کرتی رہوں گی
میری بیٹی سے بھی کوئی ماں نفرت کرتی رہے گی
ہم سب عورتیں مل کر نفرت نفرت کھیلتی رہیں گی
ہم کبھی اپنے دل بڑے نہیں کریں گی ہم اپنی خود دشمن بنتی رہیں گی
ہمارا کوئی نہیں بن پائے گاوو ہمارا کوئی نہیں ہے
جو میرے ہیں نہیں مگر جنہیں میں اپنا سمجھتی رہی ہوں 
وہ میرا دل توڑتے رہیں گے 
کیا کبھی وہ میرا دل جوڑ سکتے ہیں؟
کیا کبھی وہ خود میری طرف مٌڑ کر دیکھیں گے؟
نہیں دیکھیں گے
یہ میرا رونا نہیں ہے یہ میرا دکھڑا نہیں ہے 
یہ ایک عورت کا رونا ہے ایک عورت کا دکھڑا ہے 
جسے دھوکہ دیا جاتا ہے جسے فریب دیا جاتا ہے
اپنی ماں سے کبھی فون پہ بات نہ کرنا شادی کے بعد 
کبھی جو وہ تمہارے گھر آجائے تو اٌس سے بات نہ کرنے لگ جانا 
بلکہ گھر کے کاموں میں لگی رہنا اٌنہیں یہ احساس دلانا کہ اٌنہوں نے یہاں آکر تمہیں تنگ کیا
تبھی گھر بستے ہیں ، مائیں ہی گھر اٌجاڑتی ہیں
کونسا گھر؟ عورت کا کونسا گھر ہوتا ہے؟
کل مدرز ڈے منایا جائے گا مگر کیا ہم کبھی سچ بولے گے سچ سٌنے گے
لکھنے والوں جھوٹ لکھتے رہنا بولنے والوں جھوٹ بولتے رہنا 
میں کتنی ماؤں کو مرتے دیکھا ہے 
اگر اٌنہیں مرنا ہی تھا تو شاید خوشی خوشی مر جاتی 
مگر ماں یہی بولتی رہتی ہے تو اپنے گھر جا اپنے بچوں کو پال 
تیری فکر کون کرے گا ماں تجھے کون روٹی دے گا؟
تو میری فکر نہ کر تیرا بندہ بھوکا بیٹھا ہوگا تو اٌسے سنبھال
مگر کچھ دن بعد پتہ چلتا ہے کہ ماں ٹھیک نہیں تھی وہ تو جھوٹ بولتی تھی 
اگر ٹھیک ہوتی تو آج زندہ نہ ہوتی مگر تو مجھے پرائے لوگوں میں جھونکتی رہی ماں
رات کے تین بجے میری آنکھ کھولی تھی اور مجھے احساس ہوا تھا کہ تو نہیں ہے ماں
یہاں کوئی نہیں ہے میں نے تجھے بہت آوازیں دی تھی میں بہت چیخی امی امی امی
امی تم نے مجھے کہاں چھوڑدیاہے؟
یہاں میرا کوئی نہیں ہے صرف تم میری اپنی تھی 
مگر اب میرے کانوں میں کچھ سارا دن ماں ماں کی آوازیں آتی رہتی ہیں
میں خود ماں ہوں اور مجھے بھی اب ان کیلئے ویسی ماں بننا ہے جیسی تم میرے لیے بنی 

Thursday, January 19, 2017

میں خود کو بھول چکا تھا لیکن

یہ بات میرے لئے بھی ناقابل یقین ہے کہ مجھے تین سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا ہے کوئی بلاگ پوسٹ لکھے ہوئے  آخر میں کہاں کھو گئی تھی ؟  ایسا کیا حادثہ پیش آگیا تھا؟ مجھ پر کیا ٹریجیڈی بیت گئی جو دنیا سے کنارہ کر لیا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اتنے سال بلاگ نہ لکھنے کا میرے پاس کوئی جواز موجود نہیں ماسوائے اسکے کہ میں خود کو ہی بھول چکی تھی مجھے اپنا آپ کبھی یاد ہی نہیں آیا، میں نے گذشتہ کچھ سالوں میں ایک گھر بسایا خدا نے اولاد کی دولت دی، زندگی میں ٹھہراؤ آگیا مگر کہیں نہ کہیں مجھے احساس ہوتا رہا کہ میری ذات کی کھڑکیاں بند ہوتی گئی وہ کھڑکیاں جو ہمیشہ کھلی رہنی چاہیے تاکہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اندر آتے رہے اور آپکے اندر موجود گھٹن باہر کی ہوا میں گم ہوتی رہی۔ 
میں نے تین سال پہلے سوچا کیوں نہ کوئی شاہکار لکھا جائے کیوں نہ کوئی ایسی بات کی جائے جو جگ سے نرالی ہو، اور تین سال گزر جانے کے بعد بھی نہ تو کوئی شاہکار لکھا جاسکا نہ ہی کوئی جگ سے نرالی بات ذہن میں آسکی۔ میں نے اشفاق احمد کی تحریر پڑھی "چاند کا سفر" اور سوچا اب کوئی ایسی تحریر ہی لکھی جائے گی ۔میری ناقص عقل میں یہ بات نہ آسکی کہ میں کون ہوں میں کیا لکھتی ہوں میرا مقام کیا ہے۔ خود کو کیسی آزمایش میں ڈال رہی ہوں ۔ مصنف بننا مشکل ہے ،دانشور بننا مشکل کام ہے ، میں زبان دان نہیں ہوں ، دانشور بھی نہیں ہوں میں کون ہوں یہ مجھے بھی معلوم نہیں ہے ، میں کومن مین ہوں آم آدمی، مینگو پیپل، ہم ان لوگوں میں سے ہے جو تصور کرتے ہیں کہ زندگی کے ڈرامے یا فلم میں ہم مین رول ادا کریں گے اس دنیا میں ہمارا کردار بہت اہم ہوگا ہم خود کو بہت اہم سمجھتے ہیں مگر درحقیقت ہمارا کردار ایک پرستار کا ہوتا ہے جو عظیم اور عمدہ لوگوں کی محبت اور سحر میں گرفتار تو ہوتے ہیں مگر کبھی ان جیسا بن نہیں پاتے۔یہ سمجھنے میں مجھے تین سال لگ گئے کہ میں عام آدمی ہوں میں اشفاق احمد کی طرح نہیں لکھ سکتی میں ان عظیم الشان مصنفوں میں سے نہیں ہوں جنہیں میں پڑھنا پسند کرتی ہوں میری تخلیقی صلاحیتیں محدود ہیں۔ میں نے لکھنا چھوڑ دیا مگر جو بھی ہو میں پڑھنا نہیں چھوڑ سکتی ،اب کچھ یوں صورتحال ہے کہ کئی کئی دن میں کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتی مگر ان سے پیچھا بھی نہیں چھڑانا چاہتی میرے بیڈ کی سایئڈ ٹیبل پر ہمیشہ ایک کتاب موجود ہوتی ہے میں پڑھے ہوئے کو دوبارہ پڑھ لیتی ہوں۔ ہم میں سے اکثریت ایسی ہے جو فیس بک پر روز نہ جانے کتنی پوسٹس پڑھتے ہیں یعنی ریڈنگ ایک ایسی عادت ہے جو ہم چھوڑ نہیں سکتے میں بھی کبھی چھوڑ نہیں سکتی۔ مگر میں نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا؟ مجھے کسی نے یاد کیوں نہیں دلایا کہ میں لکھا کرتی تھی؟
کچھ بے ربط تحریریں ،کچھ منتشر خیالات مگر میں لکھا کرتی تھی، میں کچھ عظیم نہیں لکھ سکی کچھ سبق آموز نہیں مگر میں لکھا کرتی تھی۔ میں یا میرے جیسے بہت سے دوسرے لوگ جو خاموش ہوگئے مگر سوشل میڈیا سے بھاگ نہ سکے ،سوشل میڈیا سے بھاگا نہیں جاسکتا یہ ہماری زندگیوں کا اتنا ہی اہم حصہ بن چکا ہے جتنا فلم یا ٹی وی ۔میرے والدین سوشل میڈیا کا حصہ بن چکے ہیں کچھ سال بعد میرے بچے بھی یہ ویب سایٹس استعمال کررہے ہوں گے۔میں اکثر کہا کرتی ہوں کہ پہلے لوگ ڈایری لکھا کرتے تھے اور اب بلاگ لکھتے ہیں ہماری ڈایری البتہ ہم کسی کو پڑھانا نہیں چاہتے تھے مگر اپنا بلاگ ہم سب کو پڑھانا چاہتے ہیں ،ہم بدل چکے ہیں ہمارے معاشرے کی سوچ بدل چکی ہے اب رشتے کے لئے لڑکا لڑکی کی تصویریں نہیں بھیجی جاتی بلکہ انکے فیس بک کے پروفائل دیکھے جاتے ہیں یہ کہنا غلط نہ ہوگا ہم ایک نئے دور ایک نئے عہد میں داخل ہوچکے ہیں،ہم ان تبدیلیوں کو قبول کرچکے ہیں۔

  چلو کچھ ایسا کرتے ہیں کہ بلاگنگ کی دنیا میں دوبارہ قدم رکھتے ہیں خود کو مصروف کرتے ہیں اب میں پہلے جیسے ڈپریشن زدہ آرٹیکلز نہیں لکھ سکتی یا شاید لکھ بھی سکتی ہوں مگر یقین جانیے زندگی ہر رنگ سے زیادہ رنگین ہے،ہر موڑ پر خوبصورت ہے ان سب لوگوں کا شکریہ جو اپنی زندگیاں شیئر کرتے ہیں اور ہم خود بھی ان میں سے ایک ہے۔ ہم سوشل میڈیا پر موجود ہیں اپنی خوشیاں اور غم بانٹنے کے لئے، ایک دوسرے سے جڑے رہنے کے لئے۔ سوشل میڈیا ایک خوبصورت جگہ ہے یہاں سے فرار ممکن تو ہے مگر لازم نہیں آخر لوگوں سے دور بھاگنے کا کیا مقصد ہے ؟مگر سوشل میڈیا کا استعمال سمجھداری اور عقل و شعور سے کرنا چاہیے۔کسی پر بھی اندھا بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔اپنی سوچ کو مثبت رکھیے قدم بھی مثبت راہوں پر ہی پڑیں گے ۔میں اپنے WEIRD خیالات کے ساتھ دوبارہ پیش خدمت ہوں ۔ مگر اب میں پہلے سےزیادہ سرشار ہوں دو بچوں کی محبت میں جنہوں نے زندگی کو بالکل بدل کے رکھ دیا ہے ، جلد ہی دوبارہ ملیں گے اس ارادے کے ساتھ پوسٹ ختم کرتی ہوں کہ اب میں لکھتی رہوں گی ۔

فریحہ فاروق
19 جنوری 2017