تلقین شاہ پڑھتے پڑھتے کچھ ایسی لاینز آئیں جنھیں میں نے اپنی ڈایری میں لکھ دیا کتابیں چونکہ UET کی لائبریری کی تھیں تو اسلیے وہ واپس کروایئ جاچکی ھیں تلقین شاہ سیریز کی ایک بھی کتاب میرے پاس نھیں ھے مگر میں نھایت مشکور ھوں UET لاھور کی اُس اعلیٰ پایہ لائبریری کی جھاں یہ کتابیں موجود ھیں اور جھاں سے مجھے بھی انھیں پڑھنے کا شرف ملا ، وہ لاینز جو میں نے نوٹ کیں تھیں اب بھی ساتھ ھیں ، کتابیں لایبریری واپس لوٹ چکی ھیں مگر کچھ لایئنز چھوڑ گیئی ھیں جو مندرجہ زیل ھیں :
اقتباسات از "تلقین شاہ"
- "سلیمان: میڈم آپا جی میری مجبوری ھے میری لاچاری ھے میں اسکے حکم پر اور اسکی آرزؤں پر ناچتا رھوں گا اور اسطرح ورزش کرتا رھوں گا
سلیمان: اس وقت تک کہ جب تک مجھ میں زندگی ھے لایف ھے ، جمالیہ کی شادی ھوجائے گی اس کے بچے ھوجایئں گے وہ ھنسی خوشی اپنے گھر میں رھا کرے گی اور میں ورزش کرتا رھوں گا ،سمارٹ ھونے کی کوشش کرتا رھوں گا اور پھر ایک دن ایسا آئےگا مائی لارڈ سر ،پھر شام ھوجائے گی اندھیرا پھیل جائے گا ۔"
- "ھدایت: پتہ نھیں جی لیکن تکلیف میں ھوتے ھیں بیچارے، آدمی کی آرزؤں کا سلسلہ تو کبھی ختم ھی نھیں ھوتا جی میرے بابا جی فرمایا کرتے ھیں جی کہ دنیا دار آدمی کی آنکھ کو قناعت پُر کرسکتی ھے یا پھر قبر کی مٹی"
- "ھدایت: حضرت علی کرم الله وجھہ سے پوچھا گیا کہ یا حضرت اگر ایک آدمی ایک کوٹھری میں بند ھو اور کھڑکی روشن دان اُس میں کوئی نہ ھو اور کوٹھری مُقفل ھو اس کوٹھری کے باھر ایک اور کمرہ ھو اور اسکے گرد ایک اور فصیل ھو اور یہ سب کچھ ایک قلعے میں بند ھو تو اس آدمی کا رزق کس راستے سے آئے گا حضرت علی نے فرمایا جس رستے سے اسکی موت آئے گی اسی راستے سے اسکا رزق آ جائے گا "
- "ھدایت: میرے بابا جی فرمایا کرتے ھیں جی کہ دین اور دنیا میں بھت تھوڑا سا فرق ھے ، لطیف سا ، اگر دنیا کو الله تعالیٰ کی امانت سمجھ کر اسکی منشا مطابق استعمال کیا جائے یہ کلیم دین ھے اور اگر اس دنیا کو زاتی ملکیت سمجھ اپنی منشا کے مطابق استعمال کیا جائے تو سب دنیا ھے ۔ دیکھیے جی دنیا کی تمام نعمتیں علم دولت ذھانت حسُن جاہ وجلال رسوخ و اقتدار وغیرہ وغیرہ اگر اسکو الله کی امانت سمجھ کر اسکی منشاہ کے مطابق ان سے کام لیا جائے تو یہ دنیوی نعمتیں دین کا درجہ اختیا کرجاتی ھیں اور اگر انکو زاتی ملکیت سمجھ کر, جینے ،دولت یا حسن یا رعب داعب زاتی ملکیت سمجھ کر اپنی مرضی کے مطابق کام کرنا شروع کردیا جائے تو یہ سب دنیا ھے اور اسکا بکھیڑا لمبا ھے ۔“
- "شاہ: ایھہ گناہ کیا ھُندا اے؟
شاہ: ناں تیرا کی خیال اے دنیا کا کوئی کم ای نہ کریئے پتھر ای نہ لگائے عملی زندگی ما اور خدا سے لو لگا کہ بیٹھا رھے انسان آسماناں کی طرف نگاہ کرکے؟
ھدایت: نہ جی نہ ۔ میرا مطلب یہ تھا کہ سب کام کرے دنیا کے مادی زندگی کے لیکن اپنے آپ کو ان میں مبتلا نہ کرے مبتلا ھو تو صرف الله کی ذات میں
شاہ: ھم تاں خدا کی زات کے سوا ھر چیز میں مبتلا رھندے ایں
ھدایت: اور بزرگان دین اس چیز کو گناہ کھتے ھیں "
مصنف : اشفاق احمد
عمدہ انتخاب ہے
ReplyDeletethanks for sharing
ReplyDelete