Sunday, July 29, 2012

Overt Pakistani Dictionary


Overt means: clear, visible, public, intentional and undisguised 
 
Overt dictionary کے معنی ہیں چیزوں کی ایسی تعریف جو آپ کو حقیقت کے بالکل قریب تر محسوس ہو ۔ مندرجہ بالا چند ایسی تعریفیں ہیں جو میں نے خود سوچی ہیں یا یوں کہیں کہ یہ میری overt definitions ہیں اور کسی خاص و عام کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ پیشگی معذرت کے ساتھ overt dictionary کی تعریفیں پیشِ خدمت ہیں 

حکمران: یہ مان نہ مان میں تیرا مہمان ہوتے ہیں ۔ یہ کسی بھی جمہوری طریقے یا آمری سازش کے تحت آپ پر زبردستی مسلط کیے جاتے ہے اور تمام عوام ان سے نفرت کرتی ہے۔
عوام : یہ عام لوگ ہوتے ہیں جن کا کام تمام مشکلات و مصائب برداشت کرنا ہے یہ بلی کا بکرا ہوتے ہیں ان میں برداشت کا مادہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ یہ بے حِس قرار دئیے جاسکتے ہیں یہ اپنی مدد آپ کے جذبے سے محروم ہوتے ہیں۔
سوسائیٹی: یہ خوش مزاج اور خوش اخلاق لوگوں کا ایک قلیل گروہ ہوتا ہے، یہ عبادت ، ناچ گانے یا پارٹیاں کرتے ہیں اور ہمیشہ اپنے آپ کو خوش رکھنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔
بجلی: یہ پاکستان کی endangered specie  ہے بہت ممکنہ خیال ہے کہ جلد ہی یہ سائینسی نسل کی حیوان جس کی ضرورت میں ہر جنس تڑپ رہی ہے معدوم ہوجائے گی اس کی بحالی کی کوششیں بھی قابِل ستایش حد تک معدوم ہیں، اگر کہا جائے کہ بجلی زندگی ہے مگر پاکستان میں اِسے موت پڑی ہوئی ہے تو غلط نہ ہوگا۔
نیوز چینل : یہ پاکستان کی سب سے اہم پیداوار ہے اور ان چینلز کی سب سے اہم پیداوار خبریں ہیں یہ خود ہی خبریں بناتے اور خود ہی بیچتے ہیں اور پاکستان میں اینٹرٹینمنٹ کا واحد موثر ذریعہ ہیں۔
اخبار: یہ اشتہاری پمفلٹ ہوتا ہے ۔لان کے کپڑوں ، ہوٹلوں ، دکانوں، فلموں ، ہاوسنگ سکیموں ، نونہال یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اشتہار اس پر ایک ہی جگہ باآسانی مل سکتے ہیں ، اور کچھ کالم نویسوں کو  روکھی سوکھی روٹی کمانے کا سبب بھی بنتے ہیں۔
ٹی وی اینکرز: یہ مشہور زمانہ بدنام لوگ ہوتے ہیں ۔ ان کا کام باتیں کرنا اور باتیں سُنانا ہوتا ہے کردار کی دولت سے مالامال اور اعمال کی دولت سے محروم ہوتے ہیں۔ پیسے والے ہوتے ہیں مگر کبھی غرور نہیں کرتے۔
سیاست دان: یہ دھوبی کا کُتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا ہوتے ہیں)گھر اور گھاٹ سے یہاں مراد دین اور دنیا لی جائے( یہ ملک  اور قوم کے سب سے بڑے دشمن اور اپنی پارٹی کے سب سے بڑے وفادار ہوتے ہیں یہ کُتے سے زیادہ وفادار ہوتے ہیں مگر وفاداریاں بدلتے رہتے ہیں۔
سیاسی پارٹی : یہ کچھ مذہبی جماعتیں ہوتی ہیں جن کا مذہب پیسہ اور اقتدار ہوتا ہے اِن کا زمینی خدا ان کا سیاسی لیڈر ہوتا ہے سیاسی لیڈر کبھی غلط نہیں ہوتا۔ اور عوام ان کی مرید ہوتی ہے ۔
لبرل : یہ انتہائی پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ لوگ ہوتے ہیں یہ قابل اور مہارت یافتہ ہوتے ہیں ان کا اعلی کمال یہ ہے کہ اعلی تعلیمی اور سیاسی گفتگو کے ساتھ گندی اور گھٹیا سمجھی جانے والی باتیں بہت فراخ دلی کے ساتھ ایک ہی فورم پر اکھٹے کرتے ہیں ۔
کنزرویٹیو: یہ کنویں کے مینڈک ہوتے ہیں ترقی کے خلاف اور زندگی سے دور ہوتے ہیں یہ خود تو سب کچھ کرتے ہیں مگر کسی دوسرے کو  وہی سب کرتے دیکھتا برداشت نہیں کرسکتے۔
فلم: یہ حقیقت کی ضد ہوتی ہے فلم سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ جو جو کچھ اس میں ہورہا ہے یہ نہ کبھی حقیقت میں ہوسکتا ہے نہ ہوا ہے نہ ہوگا اور نہ ہی ہونا چاہیے اور اپنے علم میں اضافے کیلیے کے کیا کیا نہیں ہوسکتا یہ دیکھی جاتی ہے۔
محبت: یہ پنسل گھڑنے والا شارپنر ہوتا ہے، اچھا! نہیں ہوتا ہے؟ یہ دراصل ایک استعمال کرنے والی چیز ہوتی ہے جسے بے تہاشا استعمال کیا جاتا ہے یعنی  اصل مقصد تو کچھ اور ہوتا ہے مگر اسکے استعمال سےاپنا اصل  مقصد خوبصورتی اور نفاست سے پورا کروایا جاسکتا ہے۔
پاکستانی مرد: ساری عورتوں کو ان سے نفرت ہوتی ہے اور انہیں خود سے محبت ہوتی ہے یہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے یہ اپنے آپ کو کسی ریاست کا بادشاہ تصور کرتا ہے سیاست سے گہری دلچسپی رکھتا ہے اور نیوز چینلز دیکھنا پسند کرتا ہے۔
پاکستانی عورتیں : یہ ہمیشہ insecure  ہوتی ہیں ، شک اور حسد کرنا پسند کرتی ہیں ، دولت اور عیش سے محبت کرتی ہیں مگر نیک دِل ہوتی ہیں، یہ ہمدرد ہوتی ہیں اور شاپنگ کی دیوانی ہوتی ہیں ۔
مڈل کلاس : یہ پڑھے لکھے تعلیم یافتہ لوگ ہوتے ہیں اور امیر ہوتے ہیں یہ اپنے آپکو مڈل کلاس کہلوانا پسند کرتے ہیں زیادہ تر بیوقوف ہوتے ہیں مگر محسوس نہیں کرتے کام سے محبت کرتے ہیں اورخوشحال ہوتے ہیں ۔
پروگریسیو: یہ خود تو چھوٹے چھوٹے سکول کالج میں پڑھتے ہیں مگران کے بچے اچھے اور بڑے بڑے سکول کالج میں پڑھتے ہیں ان کے کمائے ہوئے سارے پیسے سے ان کے بال بچے عیش کرتے ہیں اور یہ خود محرومِ تمنا ہی رہتے ہیں ۔
فلرٹ: یہ وقتی قسم کی ٹائم پاس  سی  دل لگی ہوتی ہے یہ خوش رہنے کا آسان حل ہے مگر اس کو ہر وقت ہر روز نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ  اس سے اگلی منزل بوریت کی ہوتی ہے۔
گناہ : ہر وہ کام جو آپ کو خوشی دیتا ہے گناہ ہوتا ہے  یعنی وہ  کام جِسے آپ انجوائے کرتے ہیں ،فلمیں دیکھنا ٹی وی دیکھنا گانے سُننا ، گھومنا پھرنا سب گناہ ہوتا ہے۔
ثواب : یہ صرف عبادات یعنی نماز روزہ حج سے حاصل کیا جاسکتا ہے نیکی اچھائی ، خوش اخلاقی ، ایمانداری اور سچائی کے زریعے سے اسے کمانے کے طریقے معدوم ہوچُکے ہیں۔
نیکی: یہ  show  مارنے والا عمل ہوتا ہے اسلیئے کہا جاتا ہے کہ نیکی کر فیس بُک پر ڈال اگر آپ شو نہیں ماریں گے تو نیکی کا کیا فائدہ؟ اور اگر نیکی نہیں کریں گے تو فیس بُک پر کیا دِکھایئں گے؟
Infatuation: یہ ایک ایسی بیماری ہے جو بچپن کی آخری اور جوانی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے وقت انسان پر حملہ کرتی ہے یہ بیماری اپنے اثرات سالوں تک دکھاتی ہے اور کوئی بھی ویکسین یا علاج ابھی تک اس بیماری کے لئے ایجاد نہیں ہوسکا۔
مذہب: یہ غریبوں کے لئے زندگی گزارنے کا آسرا ہوتا ہے یہ اُنہیں خوش رہنے کا سہارا دیتا ہے اسی کے سہارے وہ آباد رہتے ہیں اور مصروف بھی۔
غریب ماں : یہ اپنے بچوں سے بہت کم پیار کرتی ہیں سارا دن غصے میں رہتی ہیں بات بات پر جھگڑا کرتی ہیں یہاں تک کے جن بچوں سے بہت کم پیار کرتی ہے اُن کے لئے زمانے سے لڑتی ہیں۔
غریب باپ: یہ دنیا کا سب سے نیک انسان ہوتا ہے یہ اپنے بیوی اور بچوں کا ہمدرد اور وفا دار ہوتا ہے بچوں کا ہمیشہ خوش رکھتا ہے اور ہمیشہ دوسروں کے بارے میں سوچتا ہے۔
امیر ماں: یہ دنیا کی سب سے مہربان عورت ہوتی ہے یہ شفقت اور محبت کی دیوی ہوتی ہے جو اپنے بچوں سے بہت زیادہ پیار کرتی ہے مگر وقت آنے پر بچوں کی بےعزتی کرنے سے نہیں چونکتی۔
امیر باپ : یہ ایک جابر حکمران ہوتا ہے یہ ہمیشہ اپنی مرضی کرتا ہے بچوں کو معلوم بھی نہیں ہونے دیتا کہ جو سب ہورہا ہے اصل میں اُسکی مرضی سے ہورہا ہے۔ بچے ہمیشہ اس سے وفادار رہتے ہیں
کمرشلزم : یہ لوگوں میں احساس محرومی کا احساس بیدار کرانے کی کامیاب تحریک ہے یہ پوری دنیا میں احساس ِ کمتری اور احساس محرومی کے نہ بند ہونے والے دروازے کھول چُکی ہے۔
امیر لڑکا : یہ عیش پرستی سے ، گاڑیوں سے اور  حسن سے ، محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ اپنی من مانی کرتے ہیں۔ یہ آرٹس اور کلچر کا دلدادہ ہوتا ہے۔
غریب لڑکا : یہ چھوٹی عمر سے کسی لڑکی کے عشق میں شکار ہوجاتا ہے اور ساری عمر اپنے اس عشق کے غم میں گُھلتا رہتا ہے۔یہ شاعری پسند کرتے ہیں۔
امیر لڑکی : یہ خوشحال اور آباد ہوتی ہے تعلیم حاصل کرتی ہے اور اچھی نوکری اور اچھی شادی کرتی ہے ہمیشہ خوش مزاج رہتی ہے اور زیادہ تر خوبصورت ہوتی ہے۔
غریب لڑکی : یہ زیادہ تر بدصورت ہوتی ہے جس کا سبب بیوٹی پارلر اور بوتیکوں کے چکر کا فقدان ہوتا ہے۔ یہ علم کے حصول میں خجل ہوتی رہتی ہے اور پڑھائی اس کا سب سے اہم فریضہ  ہوتا ہے۔
شادی : یہ بچوں کے لئے کی جاتی ہے کیونکہ اگر شادی نہیں کی جائے گی تو بچے کہاں سے آئے گے؟
دیوانگی : یہ ایک ایسی حالت ہے جس کی ایجاد کا سہرا بانو قدسیہ کی کتاب "راجا گدھ " کے سر ہے جس نے بھی یہ کتاب پڑھی ہے اُس نے اپنے اندر یہ حالت دریافت کرلی ہے ۔یہ حالت خود ساختہ نہیں بلکہ خود دریافتہ ہوتی ہے۔
فیس بُک : یہ وقت برباد کرنے کی ویب سائٹ ہے اگر یہ آپکی ذندگی میں نہ ہو تو زندگی ٹائم dilation  کا شکار ہوجاتی ہے اور آپ دوسرے لوگوں کی زندگی میں باآسانی جھانکیاں مار سکتے ہیں۔
ٹوئیٹر: یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ اپنی زندگی ،سیاست اور عقل و دانش کی لائیو کمنٹری کرتے ہیں اور داد وصول کرتے ہیں ۔ مگر یہاں پر ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔


Monday, July 23, 2012

خوشی کا راز


میرے کچھ دوست ہیں اور ان میں سے ایک خوش نہیں ہے یہ بات میرے لئے بہت پریشان کُن ہے۔ ایک دن میں نے اُسے فون کیا اور پہلا سوال یہ پوچھا کہ
کیا تم خوش ہو؟
جواب تھا کیا فرق پڑتا ہے کہ میں خوش ہوں یا نہیں ؟
مجھے فرق پڑتا ہے میری ساری زندگی ویران ہوجائے گی یہ جان کر کہ میری دوست خوش نہیں ہے۔۔ قصہ المختصر میری ایک دوست خوش نہیں ہے اور یہ بات میرے لئے بہت بڑی پریشانی بن چُکی ہے کیا کروں کے وہ خوش ہوجائے ایسا کیا کہوں کہ اُسکی زندگی میں بہار آجائے اُسے زندگی سے محبت ہوجائے وہ بھی دنیا کی باقی لڑکیوں کی طرح ہنسے کھیلنے لگے۔ اس سب نے مجھے کچھ سوالوں کے جواب تلاشنے پر لگا دیا ہے سوال یہ ہیں کہ زندگی کیسے گزارتے ہیں؟ لوگ کیسے زندہ ہیں؟ خوشی کیا ہوتی ہے؟ خوش کیسے رہا جاتا ہے؟ خوشی کا ماخذ کیا ہے؟  پھر کچھ یوں ہوا کہ غالب کا ایک شعر سُننے میں آیا کہ
"دل خوش ہوا مسجدیں ویران دیکھ کر
میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے"
  شاعر  اور وہ بھی غالب جسے انسانی فطرت کا سائیکالجسٹ مانا جاتا ہے ،مجھے لگا اُس نے انسان کی فطرت سے ایک اور راز اُٹھایا ہے ،غالب کو جو اپنے سے اعلیٰ نظر آیا اُس نے اُس کی بربادی میں اپنی خوشی ڈھونڈ لی کہ انسان کی یہی فطرت ہوتی ہے کہ جب اپنے سے بڑے ،طاقتور اپنے سے زیادہ علم والے اپنے سے زیادہ حسن والے، اپنے سے زیادہ عزت و مال و دولت والے کو برباد ہوتے دیکھتا ہے تو خوش ہوجاتا ہے اُسے اپنی بربادی اپنا دکھ بھول جاتا ہے وہ سوچتا ہے میں کیا چیز ہوں  آخر دیکھو مجھ سے اتنا بڑا بھی برباد ہوگیا ، آیئڈیا کسی اور کو ٹرانسفر کرنے سے پہلے اُس کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے سو تجزیے سے یہ ثابت ہوا یا تو غالب غلط ہے یہاں یا میں نے اُنکا مطلب غلط سمجھ لیا ہے مان لیجئے اگر ہمیں دوسروں کی بربادی پر ہی خوشی ہونی ہے تو پھر اُن کی کامیابی پر ہم کیا کریں گے؟ دوسروں کی بربادی پر خوش ہونے والا انسان اُن کی خوشی پر جیلس ہی ہوسکتا ہے اور کچھ نہیں اور اس طرح حسد کی آگ میں جل کر اُن کا سارا شعور اور سارا سکون غرق ہوجانا ہے اسلئے نہ تو کسی کی خوشی پر حسد کیجئے اور نہ ہی کسی کے دکھ پر خوش ہوں یہ بہت شیطانی سوچ ہوتی ہے۔
سوا ل وہی کا وہیں تھا خوشی کیا ہوتی ہے؟ خوش کیسے رہا جاتا ہے میں نے کہا تھا ایک مرتبہ کہ " جب انساان میں ایمان آجائے تو خوشی خود بخود آجاتی ہے" ایمان سے خالی انسان کبھی خوش نہیں رہتا ۔ اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ
I copy other people happiness
سب مجھے کہتے ہیں میں دوسروں کو کوپی کرتی ہوں میری خود کی کوئی شخصیت نہیں ہے میں بھی مانتی ہوں کہ میں دوسروں کو کوپی کرتی ہوں کیا کوپی کرتی ہوں ؟ میں اُنکی خوشی کوپی کرتی ہوں ایسے ہوتا ہے نہ آپ کچھ لوگوں کا ڈریسنگ سٹائل ،  فیشن ، یا زبان کوپی کریں میں نے سیکھا ہے دوسروں کی خوشی کوپی کرنا ۔زندگی کیسے گزاری جاتی ہے تو جواب ہے کہ خوش رہ کہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوش رہنا اِسے ہی زندگی کہتے ہیں میری دوست کہتی ہے کہ اگر کوئی انسان سچ میں ہی خوش نہ ہو تو کیا کرے؟ میرا خیال ہے آپ کارٹون دیکھو ، کارٹون ایک عجیب چیز ہیں حالانکہ ان کا حقیقت کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر پھر بھی ایک اچھا کارٹون آپ کو زندگی جینا سِکھا سکتا ہے آپ کی مرضی ہے آپ ٹوم اینڈ جیری سے زندگی جینا سیکھنا چاہتے ہیں یا سپائیڈر مین سے یا پوپ آئے سے یا شِن شین سے ان غیر جاندار کرداروں میں سب سے زیادہ زندگی بھری ہوتی ہے۔ کیا  میں بیوقوفوں کی طرح بات کر رہی ہوں؟ یہی تو ہم کرتے آئے ہیں آج تک ہم جن جن لوگوں پر ہنستے آئے ہیں کہ دیکھو کتنا بیوقوف ہے اصل میں یہی لوگ عقلمند ہوئے تو؟ میٹیرلسٹک کا طعنہ دے کہ شو باز لوگوں کا طعنہ دے کر ہر انسان کو ہم نے بیوقوف سمجھا ہے اور یہی بیوقوف دراصل اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
ایک سوال ہے کہ میں کیوں دُکھی ہوں؟ مگر یہ اتنا اہم شائد نہ ہو جتنی یہ حقیقت کہ میں اس بات پر دُکھی ہوں کہ "میں " دُکھی ہوں۔ مطلب یہ کتنی خود غرضی کی بات لگتی ہے کہ ساری دنیا خوش ہو اور میں  اس بات پر خوش ہونے کے بجائے کہ سب خوش ہیں  اس بات پر دکھی ہو جا ؤ  کہ میں کیوں دُکھی ہوں ،اپنے دکھوں پر دکھی نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کے دکھوں پر دکھی ہوتے ہیں اور جب آپ دوسروں کی خوشی پر خوش ہونا سیکھ جاتے ہو تو اپنے دکھ بھول تو نہیں جاتے ہاں مگر کم ضرور ہوجاتے ہیں ۔ میں خوش ہوں ؟ ہاں کیونکہ میں نے اپنے ارد گرد بہت سے لوگوں کا ہجوم اکھٹا کرکے رکھا ہے میں دیکھتی ہوں کہ وہ خوش ہیں زندگی جی رہے ہیں مجھے اتنی ہی خوشی ہوتی ہے ۔مجھے معلوم ہے کہ میں اُن کے پاس نہیں جاسکتی اُن کی خوشی میں میرا کوئی کردار نہیں ہے  مگر دور سے اُنکی خوشی پر خوش ہو سکتی ہوں اور میں دُکھی ہوں تو صرف اس لئے کہ تم دکھی ہو۔ کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو سکتی کہ میں خوش ہوں؟ کیا تمہارے دکھ پر میرا دُکھی ہونا کافی نہیں ہے جو تم خود بھی دُکھی بیٹھی ہو؟ آ ؤ  دوسروں کی کوپی کرتے ہیں اُنکی خوشی کی کوپی کرتے ہیں دوسرے خوش ہوں گے تو ہم خوش ہوجائیں گے ، ہم دُکھی ہیں اس بات پر ہم خود کبھی دُکھی نہیں ہوں گے  یہی خوشی کا راز ہوتا ہے یہ نہیں ہوتا ہے؟ آج کل تو فی الحال یہی چل رہا ہے آگے کا پتہ نہیں۔

Wednesday, July 11, 2012

راوی بےچین بے چین لکھتا ہے


میں نے اپنی کافی پچھلی پوسٹس خود بطور ریڈر پڑھیں تو سوچا کہ اُف راوی کتنا بےچین  بے چین لکھتا ہے ،ایک وقت تھا راوی چین ہی چین لکھتا تھا مگر آج جب لکھتا ہے تو سیاست اور خُدائی کو ساتھ جوڑ کر لکھتا ہے، آج ضرورت یہ پیش آگئی ہے کہ اپنی کمیوں کو سرعام قبول کرنے کے لئے سنڈریلا کی مٹی پلید کرنی پڑتی ہے کہ تو کیوں اتنی اچھی تھی سارا تیرا ہی قصور ہے کہ دنیا ڈیمانڈنگ ہوگئی ہے۔ کبھی اپنی جیلسی کو تلقین شاہ کے کردار میں گھول کر پیش کرنے کی ضرورت پیش آگئی کبھی تنقید کا راستہ کھولا اور کبھی غُصے میں یہ بھی لکھ دیا کہ اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کے ناپید حُسن میں نقص نکالے تو جوتا اُٹھا کر اُس کے مُنہ پر مار دینا چاہیے۔ یہ غم و غصے کی انتہا کیوں ہے آخر، آج جب راوی بےچین بے چین لکھتا ہے تو گانے گونگے اور فلمیں اندھی قرار دے دیتا ہے،حالانکہ یہ ایک تمثیلی بات تھی مگر گانوں سے دل اُچاٹ ہوجانا اور اُسکے ساتھ ہی اپنے لئے تصوف کا راستہ کھول لینا نصیب کی بات تھی ،اِسے خود ساختہ نصیب کہتے ہیں۔
 "اپنی قبر کے لئے پلاٹ بُک کرائیں" یہ اشتہار آپکی نظروں سے نہیں گزرا ،جی اس میں میرا ہی قصور ہے اگر میرے بلاگ کی کوئی ریٹنگ ہوتی اور اس میں ہیڈلایئنز بنانے کی صلاحیت موجود ہوتی تو یقینی طور پر "گنجان آباد شہر کا گنجان آباد قبرستان" پڑھ کر ہر آدمی اپنی قبر کا پلاٹ بُک کرانے پہنچ جاتا۔ پورے مُلک میں "قبرستان ہاوسنگ سکیمز" شروع ہوجاتیں مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ میرے بلاگ کی "پروفائل پکچر" پر وہی ایک سلیب کی تصویر عرصہ دراز سے ٹنگی ہے۔ ہوا کچھ یوں کے راوی بہت بےچین رہنے لگا کہ مرنے کے بعد اپنے کتبے پر کیا لکھوائے گا پھر دوستوں نے صلاح و مشورے سے نتیجہ نکالا کہ قبر پر کتبہ ہی نہیں لگوایا جائے گا بلکہ ایک سو کالڈ یعنی بہت ٹھنڈے مسلمان کی قبر پر  صلیب گاڑھی جائے گی ،کیونکہ دوستوں کا کہنا ہے کہ  صلیب " ظلم ، ناانصافی اور خون" کی علامت ہے قبر پر اگر  صلیب لگی ہوگی تو خود ہی ساری کہانی سُنادے گی اس بات نے میرے ذہن پر ایسی  صلیب گاڑھی کہ پھر کبھی  صلیب کی تصویر ہٹانے کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوئی اور اگر کسی نے کبھی بلاگ کا رُخ کیا بھی ہے تو یقین جانیے آج تک ایک بھی بنی نوع انسان نے اس  صلیبی ڈی پی کا سبب نہیں پوچھا آج با زُبانِ شرمندگی خود ہی اپنا دکھ رو لیا ہے۔
 اپنا بلاگ پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ راوی نہ تو اچھا اچھا لکھتا ہے نہ بُرا بُرا لکھتا ہے راوی تو صرف بےچین بے چین ہی لکھتا ہے راوی کو آج تک زندگی میں کوئی بڑا کام کرنے کا موقع نہیں ملا ، نہ ہی اُس نے خود موقع پیدا کرنے اور تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر اپنی شکرگزاری کا بھرم قائم رکھنے کیلئے میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو اشفاق احمد کا یہ قول یاد دلایا کہ
"پیاز کاٹنا مشکل کام ھے آٹا گوندھنا مشکل کام ھے کیا بنے گا ھماری قوم کا اتنے چھوٹے چھوٹے کام تو ھم سے ھوتے نھیں ھیں کب ھم ھوائی جھاز بنایئں گے کب ھمارا راکٹ چاند پر جائے گا کب ھم تیل تلاش کریں گے؟" 
مجھے سالوں آٹا گوندھ کر بھی ہوائی جہاز نہیں بنانا آسکتا مجھے بھی یہ معلوم ہے، مگر میرے لئے آٹا گوندھنا ہی اہم ہے کیونکہ ہوائی جہاز سے میری ماں روٹیاں کما تو سکتی ہوگی مگر پکا نہیں سکتی۔ اس لئے میں نے فطرت کے اِن روشن قوانین کو بدلنے کی کوشش نہیں کی جس کی مخالفت کرنے پر میری امّی مجھ سے پوچھ سکتی تھی کہ اب اس ہوائی جہاز سے روٹیاں کیسے پکیں گی؟
راوی کی بےچینی کا شغف دیکھیئے کہ بات کی بھی تو ادھوری کی، یہ تو بتایا کہ "ذکر سے فکر بدل جاتا ہے" مگر یہ بتانے کی باری آنے پر کہ کونسا فکر بدلا ہے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ٹائم نہیں ہے مزید لکھنے کا ، تاکہ تبدیلی سے پہلے کے افکار پر ڈاکہ نہ پڑ سکے میرا مطلب ہے پردہ پڑا رہے
"اوہ جوگی جگ وچ رول دِتا ---- مینوں کہیڑے پاسے موڑ دِتا" راوی کوصرف ایک لائن وارد ہوئی تھی باقی کی تمام لایئنز تنقید اور طعنوں کا مرقع ہے ،طعنہ اصل میں کِسے دیا گیا ہے؟ لڑکیوں کو دیا گیا طعنہ ,خوشقسمتی سے لڑکیوں نے نہیں پڑھا اور کوئی مقابلہ بازی کا سماں نہیں بندھا۔
زندگی کو جسموں سے باہر زندہ رکھنا، یہاں تک  کہنا کہ جب جسم سے زیادہ بھی کچھ زندہ ہوتا ہے یہ راوی نے لکھا نہیں ہے لکھوایا گیا ہے۔کِس نے لکھوایا ہے؟ وہ راوی کو بھی نہیں معلوم مگر راوی چاہتا ہے اس پر ایک ڈرامہ بنایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس خیال کو جی سکیں کہ زندگی صرف جسموں کے زندہ رہنے کا نام نہیں ہے، اور نہ ہی جسم کی حُرمت لمحاتی ہوتی ہے۔ جو کسی خاص لمحے مکمل طور پر ختم ہوجائے اور پھر بحال نہ ہوسکے،اس پوسٹ کو پڑھ کر ایک نوجوان لڑکی نے مجھے میسیج کیا کہ آپکی پوری پوسٹ تو مجھے سمجھ آگئی ہے مگر یہ آخری بات سمجھ نہیں آئی کہ ہر لمحے جسم کی نئی حُرمت ہوتی ہے، خدا آنے والے ہر لمحے کی حُرمت برقرار رکھے،راوی کیا جواب دیتا یہ بہانہ بنا دیا کچھ سالوں بعد سمجھ جاوگی فکر نہ کرو۔
علامہ اقبال سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپکی زندگی میں کونسا ایسا بڑا واقعہ ہوا جو اس طرح کی تحریروں کا سبب بنا ، علامہ اقبال نے جواب دیا تھا کہ میری زندگی میں کوئی خاص بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا مگر ایک ذہنی انقلاب اور ایک خیالات کا ارتقاء رونما ہوا ہے جس نے سوچ میں انقلاب برپا کردیا۔اقبال کی ساری شاعری سوچ کا انقلاب تھا۔ راوی کی زندگی میں کوئی بڑی بات نہیں ہوئی کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا محض سوچ کا ایک کھیل ہے جو ان تمام بےچینیوں میں ڈھل گیا۔ کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہوئی جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا نہ کوئی کامیابی نہ کوئی ناکامیابی ،زندگی کے جمود کو افکار کی بےچینی کو اپنی تحریروں میں اُمڈ دیا۔ آخری رونا یہ ہے کہ راوی کی بےچینی اور مختلف مختلف تجربات کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ راوی کا بلاگ مشہور نہیں ہے جس کا سب سے بڑا سبب ہی شاید یہ ہے کہ راوی بےچین بےچین لکھتا ہے۔ سیلف پرموشن اور پبلِسٹی کے زمانے میں میرے دوست ہر اُس انسان کو جو کسی کو زبردستی اپنا بلاگ پڑھائے  سٹرگلر کا طعنہ دے دیتے ہیں اب اس طعنے سے بچنے کے لئیے اور اپنے آپکو سٹرگلر کی کیٹگری سے نکالنے کیلئے راوی نے دوسروں کو زبردستی اپنا بلاگ پڑھانا بھی چھوڑ دیا ہے، جس کے سبب بلاگ اور غیرمعروف ہوگیا ہے،اب جو پڑھے اُسکا بھی بھلا جو نہ پڑھے اُسکا بھی بھلا ۔ دور یہ مزاح کا ہے اور لوگ مزاح لکھنا مزاح پڑھنا پسند کرتے ہیں ایسے میں راوی جو بےچین بے چین لکھتا ہے وہ کون پڑھے جب راوی سے خود نہیں پڑھی جاتی اپنی بےچین تحاریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔