Monday, October 8, 2012

خوشی کا اُصول

اس پوسٹ سے قبل میں ایک بلاگ پوسٹ لکھ چُکی ہوں جس کا موضوع خوشی اور ٹایئٹل "خوشی کا راز " تھا۔ آج جو پیشِ خدمت ہے اسکا نام ہے" خوشی کا اُصول" اب آپ سوچیں گے کہ خوشی کے اُصول اور خوشی کے راز میں کیا فرق ہوگیا؟عقلمند ویسے ایسا نہیں سوچیں گے کیونکہ راز اور اُصول میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔ خوشی کے ناکام راز آپ کے سامنے پہلے ہی فاش ہوچکے ہیں اب آپ کو خوشی کے لاگو اْصولوں کا سامنا کروانے کی سعی کرتے ہیں۔
خوشی کا کیا اُصول ہوتا ہے؟
پہلے دادی اور پھر اپنے پاپا سے کہانیاں سُننے کا شوق بچپن میں میرے سر پر سوار تھا کہانیاں جو لوک داستانوں کی شکل میں ہوتی ہیں یا بادشاہوں کی کہانیاں اپنے اندر بہت گہرے راز سموئے ہوئے ہیں۔ بچپن میں دہرائی جانے والی ان کہانیوں میں ایک ایسے قصے کا بھی ذکر تھا جس کے اندر خوشی کا اُصول بیان ہوا ہے یہ ایک جابر اُصول تھا مگر کسی نہ کسی صورت میں اُصول سارے ہی جابر ہوتے ہیں۔ کہانی میں ایک ایسی ریاست کا ذکر ہے جس کے بادشاہ کا ایک ہی اُصول ہے کہ رعایا کو جیسی بھی حالت میں رکھا جائے مگر بادشاہ اُن سے روز رات کو ایک سوال ضرور پوچھے گا کہ "خوش ہو؟" اور سب نے ہاں میں ہی جواب دینا ہے کوئی بھی "نہ" میں جواب نہیں دے سکتا۔ نفی میں جواب دینے والے کو سخت سے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا ، اب بادشاہ کی ریاست میں رعایا کو دن رات کام کروایا جاتا ہے پورے دن کی مزدوری کے بعد کھانے کو ایک سوکھی روٹی اور دال دی جاتی اور پھر رات کو جب بادشاہ سلامت پوچھتے کہ "خوش ہو؟" تو سب یہی جواب دیتے کہ خوش ہیں اس ایک اُصول کی کوئی خلاف ورزی نہیں کرسکتا تھا پھر کچھ یوں ہوتا ہے کہ ایک انتہائی چالاک لڑکا بادشاہ سے بدلا لیتا ہے اور اس کا جینا محال کردیتا ہے اور ہر بار سوال پوچھتا ہے کہ "بادشاہ سلامت خوش ہیں؟" کیونکہ اُصول بادشاہ پر بھی لاگو ہوتا تھا، ریاست جیسی بھی تھی استثنیٰ سے عاری نہیں تھی تو بیچارے بادشاہ کو اپنا سب کچھ لُٹا کر بھی جواب دینا پڑتا کہ ہاں خوش ہوں، یہ پنجاب کی ایک مشہور کہانی یا قصہ ہے جو دادیاں نانیاں سُناتی ہیں میری دادی نے ہی میرے پاپا کو سُنائی پھر وہ آگے پھیلائی گئی مگر اس کہانی میں کیا سبق چُھپا ہے؟؟ تو وہ ہے خوشی کا اُصول ۔ کیا ایسا خوشی کا اُصول ہوتا ہے؟ بس دیکھ لیں۔
ہمارے گھر بھی ایک ریاست ہیں جہاں سارے گھر کی مالکن اور بادشاہ "ماں " ہوتی ہے اور ہماری عموماً سب مایئں اِسی اُصول کو اپنے لاشعور میں سمو کر اپنی اس ریاست کے امور سرانجام دے رہی ہیں ہم سب کے گھروں کا صرف ایک اُصول ہے  بادشاہ ماں ہے جس نے بغیر الفاظ کے یہ سوال پوچھتے  رہنا ہے کہ "خوش ہو؟" اور رعایا یعنی بچوں نے یہی جواب دینا ہے کہ "ہاں خوش ہیں" نہیں کہنے کا یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا "نہیں" کہنے کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟ مجھے نہیں معلوم سزا کس حد کی ہوتی ہوگی، کہاں تک ہوتی ہوگی یا ہوتی بھی ہو کہ یا نہیں مگر یہ روایت ہی نہیں ہے کہ انکار کیا جائے "نہیں" کا کوئی جواز نہیں ہے،ماں کیسی بھی پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ ، مڈل کلاس ہو یا اپر مڈل کلاس سب کی ریاست کا ایک ہی اُصول ہے "خوش ہو" "ہاں جی خوش ہیں " جو ملے خوش ہو ، نہیں ملا خوش ہو ، ماں کبھی "نہیں خوش ہوں" نہیں سُنتی اور کبھی یہ سوال پوچھتی بھی نہیں ہے کہ خوش ہو یا نہیں مگر بہانوں بہانوں میں اس کا جواب مانگتی رہتی ہے ، کوئی بھی گلہ شکوہ سُننے سے انکاری ماں ہمیشہ بچوں کو خوش ہی ماننا چاہتی ہے ، یہ خدانخواستہ کوئی برائی نہیں ہے جو یہاں بیان کی جارہی ہے نہ ہی اس کا تعلق ماں جیسی عظیم ہستی کے احسانات و محبت سے انکار ہے یہ محض رویوں کی بات ہے اور اس بات کے ایمان کی کہ میرے بچے خوش ہیں ، اب چاہے وہ خوش نہیں ہیں مگر پھر بھی وہ اس بات کا ایمان کبھی نہیں ٹوٹنے دیتیں کہ میرا بچہ خوش ہے ۔اسکا تعلق صنفی تفریق سے بھی نہیں ہے بیٹا ہو یا بیٹی ماں اِس اُصول کا استعمال دونوں پر ہی برابری سے کرتی ہے اور کبھی اس اُصول میں تفریق نہیں برتتی ، میں نے ماؤں کو اپنے بچوں کے لئے مانگتے دیکھا ، کبھی اُن کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش کے لئے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے دیکھا،کبھی اپنے بچے کے علاج کے لئے زاروقطار  روتے ہوئے دیکھا ہے ، دوسروں سے اپنے بچوں کی خاطر لڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے مگر جب بات بچے اور ماں کے درمیان کے تعلق پر آتی ہے ماں فوراً وہ بادشاہ بن جاتی ہے جسکو اپنے بچے کی "ہاں" ہی سُننی ہے ، میں نے پچھلے دنوں کچھ لوگوں کو بہت عجیب گفتگو کرتے سُنا وہ کہہ رہے تھے کہ "ماں اور خدا کے سوا کوئی انسان کے شکوے نہیں سُنتا" خدا سے شکوے کرنے کو لوگ ناشُکری قرار دیتے ہیں اور ایسی بھی  "ماں" ہے بھئی جو شکوہ سُن لیتی ہے؟ ہماری تو نہیں سُنتی یہ مزاق نہیں ہے ہماری ماؤں کا یہ ایمان ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ تم خوش نہ ہو ، شائد یہ اُصول بھی ماں نے خدا سے ہی سیکھا ہے خدا بھی بندے کو کبھی گراتا ہے کبھی اُٹھاتا ہے کبھی نواز دیتا ہے کبھی چھین لیتا ہے مگر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں خوش نہیں ہوں ، خدا کا حکم ہے کہ ہر حال میں خوش رہنا ہے یہی خوشی کا اُصول ہوتا ہے یہی ماں کا اُصول ہوتا ہے ہماری ماؤں کے لئے ہم دنیا کے خوش و خرم انسان ہیں کیونکہ اُنہوں نے جب بھی پوچھنا ہے تم خوش ہو تو "ہاں خوش ہیں" ہی جواب دینا ہے ، یہ اُصول بھی ماں بادشاہ کا اپنا بنایا ہوا ہے اور وہ لوگ جن کی ماں "نہیں خوش ہوں " سُن لیتے ہیں وہ بھی خوش قسمت انسان ہیں یہ بھی ماں کی محبت کا ایک طور ہوتا ہوگااُس کی سہہ جانے کی ایک صلاحیت ہوتی ہوگی  مگر شاید وہ اُصول سے آزاد ہوں گے خوشی کے اُصول سے آزاد ۔یہ خوشی کا اُصول جو یہاں لاگو ہے یہ ماں نے آپکو زندگی کی شاید ایک پریکٹیس کروانی ہوتی ہے تسلیم و رضا سیکھانی ہوتی ہے کہ خدا کسی بھی حال میں رکھے جواب "خوش ہوں " ہی دینا ہے۔
فریحہ فاروق
10-08-2012

Sunday, September 23, 2012

Disqualification


محبت کا آغاز المیے سے ہوتا ہے۔ وہ کیا چیز ہے جس سے محبت کا آغاز ہوتا ہے؟ لوگوں کے ساتھ ایسا  بھی ہوتا ہوگا کہ وصل دیکھا پھر جدائی آگئی مگر میرے نصیب میں عدم تھا اور عدم سے پھوٹتی دکھوں کی نہر ، محبت کی نہر ،محبت کی پہلی سیڑھی ہی دکھ کی سیڑھی تھی نہ کوئی ہنسی نہ خوشی ،محبت آئی بھی تو دکھ کا نام بن کر، میری بازو پہ پہلی چوڑی غم کی چڑھی ،دوسری دکھ کی، تیسری تکلیف کی، چوتھی درد کی پانچویں اذیت کی ،بس یہ دکھ ،درد ،تکلیف ،غم اور اذیت بن کر جو آئی تھی اس کا نام محبت تھا ۔سارا دن عجیب سوچوں میں گزارا جاتا تھا برتن دُھل رہے ہیں دماغ میں وہی کیفیت ، ہاتھ آٹا گوندھ رہے ہیں اور دل صلیب پر چڑھایا جارہا ہے اور اُس سے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں ۔کچھ کھانے کو دل نہیں کرتا تھا سارا دن سوگ میں گزرتا، شادیوں پر جاتی تو میری تصویریں ایسی آتیں کہ گمان ہو کسی ماتم کا حصہ بن رہی ہوں اور پھر کالی اندھیری رات آجاتی اور صرف ایک "رونے دھونے" کا عمل ہوتا۔ دماغ ایسے جکڑ جاتا جیسے پورے دماغ میں ریشہ بھر گیا ہو نہ کوئی آواز نکلتی نہ آہ نہ سسکی مگر آنسوؤں کی ٹرین رواں ہوجاتی قطار در قطار بہتی جاتی، تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی،آنسوؤں کی قطاریں سانپ بن کر پورے منہ پر رینگنے لگتے آنسوؤں کی کوئی لڑی ناک میں جاتی، کوئی ہونٹوں سے ہوتی منہ میں جانے کا راستہ بناتی یہاں تک کہ زبان اگر ہونٹوں کو چھو جاتی تو نمکین ہوجاتی مگر جسم اتنا مریل ہوجاتا کہ آنسو نہ پونچھتا اپنے ہاتھوں سے اپنے آنسو نہیں پونچھے جاتے ہوں گے ، ایسا ہی انسان کی جبلتّ کا قانون ہوگا کیونکہ اُس وقت تمام شعور پر جبّلت ہی طاری رہتی اندر خانے سے کہیں زور کی چیخوں کی آواز بھی آتی مگر اُسکی گونج اندر ہی گھومتی رہی جہاں مُنہ دھرا ہوتا وہاں تکیے کا پورا غلافآنسوؤں سے تر ہوجاتا پھر ناجانے کب اشکوں کی لہر نیند میں اُترتی اور پھر وہی صبح وہی رات وہی انتظار کی چکّی پِستی ۔
یہ سلسلہ اپنی شدت اختیار کرتا جارہا تھا درد اپنی تمام حدود پار کرتا جارہا تھا کسی بھی لمحے دماغ کی کوئی شریان پھٹ سکتی تھی ساری ساری رات تکیے کے غلاف بھگونے کی وجہ سے سر اور آنکھیں شدید درد کا شکار ہوچُکیں تھیں یہاں تک کے درد پورے چہرے تک پھیل چکا تھا ناک کی ہڈی سے درد گالوں کی طرف پھیل جاتا اور زندگی میں آگے کچھ نظر نہیں آرہا تھا سوائے ایک پہاڑ جیسی زندگی جس میں قدم  قدم پر میری روح کو روندے جانا تھا اتنا دکھ میرے لئے انتظار میں کھڑا تھا لوگوں کے لئے جو سب خوشی کی باتیں ہوتیں ہوں گی میرے لئے ڈراؤنے خواب کی آغوش تھی جسم کا درد برداشت ہوجاتا ہوگا مگر جب روح درد اور تکلیف کا شکار ہوجائے تو؟ چھٹکارا کہاں تھا ؟ کیا اس کرب سے چھٹکارے کا کوئی راستہ موجود بھی تھا ؟
کیا میں چھٹکارا پانا چاہتی تھی؟ ہاں! میں دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا اس کے علاوہ بھی اب مجھے کچھ محسوس ہوسکتا ہوگا کوئی آزادی جو اس کرب سے چھٹکارا دِلا سکے پھر ایک دن کچھ لوگ مجھ سے ملنے آئے اُنہوں نے پوچھا کیا وارث شاہ کے مزار پر جاتی رہی ہو؟ میں نے ہاں میں جواب دیا۔ ایسا کرو اب ایک بار پھر ہو آؤ۔ کیا معلوم تمہاری حالت دیکھ کر کچھ ترس آجائے مگر اُس وقت جانا جب وہاں دور دور تک کوئی نہ ہو ایسے عوامل سب کے سامنے حل نہیں ہوسکتے۔ میں نے پوچھا کس وقت؟ جواب مِلا "رات کے تین بجے"
:رات کے تین بجے؟ اور وہ بھی وارث شاہ کے مزار پر وہاں مجھے کون لے کر جائے گا؟
"لے کر کوئی نہیں جائے گا پہنچا دی جاؤ گی ، جاؤ اب انتظار کرو"
یہ گہری اندھیری رات تھی اماوّس کی راتوں جیسی باہر صرف درخت اور اندھیرا تھا اور میں مزار کے اندر۔ یہ میرا روز محبت کے کرب میں رونے کا وقت ہوا کرتا تھا میرے بےتہاشا آنسو بہہ رہے تھے ،باہر گھپ اندھیرا اور بنا چاند کے رات ہی تھی مگر مزار میں سب صاف نظر آرہا تھا ۔
 کیا یہاں سکون اور آزادی مل سکتی تھی؟
 اب غیر ارادی افعال کا سلسلہ شروع ہوگیا ،میں سر سے پاؤں تک سفید لباس میں لپٹی ہوئی تھی وارث شاہ کی قبر بھی وہ دن والے مزار والی قبر نہیں تھی جو سفید سنگِ مرمر سے ڈھکی ہوتی ہے یہ تو بس قبر تھی مگر سفید چادر سے ڈھکی تھی میں زار و قطار روئی جارہی تھی پھر نہ جانے مجھے کیا ہوا میں قبر کی طرف بڑھی اور اپنی دونوں لمبی بازویئں پھیلا کر قبر کو چمٹ گئی آج تک میں بغیر آواز کے ہی روتی آئی تھی روتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے میرے جبڑوں کو لقویٰ مار گیا ہے مگر آج میرے رونے میں اتنی شدت آگئی کہ میں زور زور سے چیخیں مارنے لگی اور آنسو تھے روکتے نہ تھے میں روتی جارہی تھی چیخیں مار رہی تھیں انتہائی درد ناک اور کرب ناک چیخیں ،جنہیں کوئی بھی سُن کر برداشت نہ کر پائے ۔ناجانے یہ چیخیں کہاں سے نکل رہیں تھیں؟ پھر ایک دم کچھ عجیب سا ہوا مجھے قبر پر جھکے ہوئے یہ خیال دل میں آیا کہ اب یہ انتہا ہوگئی ہے اب اور اس سے آگے یہ سلسلہ کہاں ٹھہرے گا؟ میں نے دعا کی "یا اللہ یہ میری روح واپس لے لیجیے یہ تو بڑی تکلیف دہ ہے اِسے واپس بُلا لیں اس سے آزادی دِلا دیں" اور مزید زور زور سے کرب ناک چیخیں مارنے لگی پھر ایک دم جیسے میرے پاؤں سے زمین نکل گئی یہ کیا تھا ؟ وہ ساکت قبر جس سے لپٹ کر میں رو رہی تھی وہ قبر زور زور سے ہلنا شروع ہوگئی میں نے سر اُٹھا کر دیواروں کو دیکھا سب ساکت تھیں مگر میرے ہاتھوں اور بازوں کے حصار میں پڑی قبر زور زور سے ہل رہی تھی میں ڈر کے مار پیچھے جالیوں والی دیوار کی طرف بھاگی اور اُسی وقت خوف سے بےہوش ہوگئی ۔
قبر والا جاگ چُکا تھا اور قبر کے دو دربان بھی حاضر تھے ،
پہلا درباری: وارث جی ہم معافی چاہتے ہیں ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ لڑکی کتنی بڑی مصیبت ہے جس نے آپکو قبروں میں سے اُٹھا دینا ہے۔
دوسرا درباری: وارث جی خدا کتنا رحیم ہے کتنا سخی ہے جب دینے پر آتا ہے تو اس جیسیوں ،لاغروں اور حقیروں کو کیسی کیسی روحیں نواز دیتا ہے اور اسکی ناشکری کا عالم دیکھیے۔ کہ اپنی روح واپس کروارہی ہے۔
وارث شاہ: خدا کے بندوں کی کسی بھی وقت کوئی بھی دعا پوری ہوسکتی ہے ہمارا کام تو صرف دستخط کرنا ہے حُکم تو اُوپر سے صادر ہوچکا ہے ہم نے وہی آگے پہنچا دینا ہے۔
پہلا درباری: کیا آپ سچ میں دستخط کردیں گے ؟
وارث شاہ:  خدا کا جو حکم ہوا ہے اُسی پر عمل کیا جائے گا یہ تو بس اظہار کا در سمجھ کر یہاں آئی تھی کچھ مانگنے نہیں آئی تھی نہ ہی ہم دینے والے ہیں توبہ! توبہ! ہم بھلا کسی کو کیا دے سکتے ہیں ، اسکے اور خدا کے درمیان کا معاملہ ہے اس نے اظہار کردیا اوپر سے حکم آگیا ہم نے تو صرف ڈاکیے کی طرح اسکا پیغام اسکے ہاتھوں میں پہنچا دینا ہے ، کیا کبھی کسی ڈاکیے نے خود چٹھی کے اندر موجود پیغام  لکھا ہے؟ کیا کبھی کسی ڈاکیے کا اپنا حکم چلا ہے کہ خط میں کیا ہو اور کیا نہ ہو؟ مگر کیا کبھی ڈاکیے کے بغیر چِٹھی وصول کرنے والے تک پہنچی ہے؟؟ ہمارا کام تو بس اِسکو حکم پہنچا دینا ہے ، حُکم جو "حاکم" کی طرف سے آچکا ہے۔ ہم تو ذریعہ ہیں محض۔
پہلا درباری: کیا روح واپس بُلا لی جائے گی؟
وارث شاہ: نہیں اِسے چھوڑ دے گی بس، روح آزاد کردی جائیں گی ایسے جیسے کوئی گیس والا غبارہ اُڑتا ہے بے یارومددگار ، اپنے مالک کی گرفت سے دور ویسے، مگر آزاد روحوں کو خطرہ ہے کہ کہیں شیطان کے چنگل میں نہ پھنس جایئں پھر تو اُن کا نکلنا بہت مشکل ہوسکتا ہے۔ مگر اس نے خود دعا کی ہے خدا دعاؤں کو سُننے والا ہے اِس کی روح آزاد ہوئی۔
دوسرا درباری: اس لڑکی کی حرکتیں بھی تو دیکھیں کوئی ایسا "پِٹ پٹیا" کرتاہے بھلا؟ اس نے تو اپنا رونا کبھی ختم کرنا ہی نہ تھا اسے ایسے ہی چھٹکارا ملنا چاہیے تھا ، بیوقوف ساچھوٹا انسان ہے یہ۔
وارث شاہ: بس خدا کی رنگ رنگ کی مخلوق ہے ، ہم دستخط کئے دیتے ہیں یہ اسکا letter   disqualification   ہے اِسے محبت جیسی شے سےDisqualify  کیا جاتا ہے اسکے لئے یہی حکم نامہ مِلا ہے ہمیں ۔
میں ہلکا ہلکا ہوش میں آرہی تھی میرے ہاتھ میں میرا disqualification letter موجود تھا ،مجھے کانوں میں ہلکی ہلکی آواز بھی آرہی تھی "دیکھو بی بی ویسے تو آپ پڑھنا لکھنا جانتی ہیں مگر یہ خط آپ خود پڑھنے کے قابل نہیں ہے اسلئے ہم آپکو آپکی  زبان میں بتا رہے ہیں، ہم اس دربار کے درباری ہیں آپ کے لیئے محبت سے disqualification   کا حکم ہے ۔ وارث شاہ جی نے دستخط  بھی کردیئے ہیں اب آپ بالکل آزاد ہیں اب آپ کی جگہ براعظم یورپ ، ملک انگلستان ، شہر لندن کے Queen Mary University میں پڑھنے والی ایک لڑکی کو qualify  کردیا گیا ہے اب وہ محبت کرے گی آپ کی جگہ آپ نہیں ، آپ بالکل آزاد ہوئی آپ پر اب آج سے کوئی بوجھ نہیں ۔
دن چڑھے جب میری آنکھ کھلی تو میرے دماغ میں رات کی ساری کہانی اور اُس درباری کے تمام الفاظ گونج رہے تھے مجھے اپنا آپ اتنا ہلکا محسوس ہوا کہ غالباً میں ہوا میں معلق تھی تمام درد غایب ہوچکے تھے مجھے سب کچھ نیا نیا محسوس ہورہا تھا میرے اندر کوئی چیز دھمال ڈال رہی تھی مجھے لگا جیسے مجھے کسی اعزاز سے نواز دیا گیا ہے میں نے قبولیت میں سرشار ہوکر فیصلہ قبول کرلیا ،یہی حُکم ہے اب میری اپنی مرضی تھوڑی ہے یہ! کرنے دو وہ لندن والی انگریز میم کو محبت وہ کرسکتی ہوگی یہاں کیا ہونی تھی ۔ مگر اب میں اس "محبت" نام کو اپنے ہونٹوں پر نہیں سجا سکتی تھی مجھے جو خود کرنے کا حُکم نہیں ہے اُسے کسی دوسرے کو کیسے تبلیغ دے سکتی تھی ۔دیکھ دیکھ کر، دھیان سے زندگی گزارنی پڑتی ہے جس میں اِسکا نام نہ آتا ہو یہ نام ہی تو تھا پہلے بھی شائد ایک نام کے زندگی کے نکل جانے سے آزادی مل گئی تھی اب برسوں بیت گئے ہیں میں کبھی کِسی امتحان میں فیل نہیں ہوئی سوائے محبت کے۔ اُس رات میں نے انجانے میں اپنے ایک ایک دکھ کی چوڑی بھی روتے ہوئے قبر پر مار مار کر توڑ دی تھی اب بس سکون تھا اور ہے ، آپ مجھ سے پوچھ لیجیے محبت کیا ہوتی ہے؟میں اسکی سو برایئاں یا اچھایئاں بیان کردوں گی مگر یہ کبھی مت پوچھئے گا میرے لئے محبت کیا ہے کیونکہ  میری خشک آنکھوں میں جنہوں  نے اب سالوں سے کبھی اب ایک آنسو کی بوند نہیں دیکھی میری دل نے جو پتھر کی سختی کو بھی مات دے چُکا ہے اسکا کوئی جواب نہیں دینا ،بھلا کسی کو یہ کہتے ہوئے اچھا لگتا ہے؟ میں کیا بتاؤں میرے لئے محبت وہ ہے جس میں مجھے disqualify  ہی کردیا گیا ۔ اور میں یہ بھی نہیں پوچھ سکتی دُکھی سا منہ بنا کہ "مجھے کیوں disqualify کیا ؟


(بلاگ پر میرا پہلا افسانہ)
فریحہ فاروق

Wednesday, September 5, 2012

مراقبہ

ماریہ جو میری دوست ہے اور میری ہر پوسٹ میں اُسکا ذکر بھی موجود ہوتا ہی ہے وہ میرے مسئلوں کا حل تلاش کرتی رہتی ہے اُس نے مجھے مراقبے کا مشورہ دیا ہے ،مراقبہ کیا ہوتا ہے؟ اُسکی چند تفصیلات سے اُس نے مجھے آگاہ کیا اور ایک کتاب بھی  recommend  کردی جو یقینی طور پر میں نے ابھی تک نہیں پڑھی مگر ماریہ کی باتوں سے معلوم ہوا ہے کہ مراقبہ کرنے کے لئے concentration  یعنی دھیان لگانا پڑتا ہے کسی ایک نام یا نقطے پر دھیان لگا لو اور دنیا کی تمام تر دوسری سوچوں سے خود کو آزاد کرلو پھر کہیں جو ایک پُرسکون اور ٹینشن سے نجات کا ایک لمحہ بھی مل جائے تو سمجھو مراقبہ ہوگیا 


پہلی بات تو یہ کہ میں مراقبے کے موضوع کے بارے میں چِٹی ان پڑھ ہوں اور یہ سب ماریہ نے بتایا ہے اُسکے الفاظ ہیں یہ مراقبے کے بارے میں، میرا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں بھی اُن لوگوں میں سے ہوں جنہیں کبھی اپنی سوچ پر قابو نہیں رہا یہ اتنی آزاد ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کوئی اتنا بھی آزاد ہو تو کیا بات ہے ۔مجھے تو یہ بہت مشکل سا کام لگا کہ کچھ نہ سوچو سارے خیالِ غیر دل و دماغ سے نکال کر مراقبہ کرلو کیونکہ یہ میرے لئے ایسے ہی ہے جیسے کوئی involuntary     کام کو voluntary  سرانجام دینا ۔

ماریہ نے کہا کوشش کرو کئی دن لگی رہو آہستہ آہستہ کامیابی مل جائے گی اس سے پہلے بھی میں نے سانس کی مشقوں میں پھیپھڑے گِھسانے کی کوششیں کی ہیں مگر افکار اور پریشان ہوتے گئے آخر اُن سے منہ پھیر لیا مُشقت سے میرا اینٹ وٹے کا بیر رہا ہے مگر میرے میں ایک عادت ہے یا یوں کہیں ہم سب میں ایک عادت ہوتی ہے کہ جو چیز بڑی ناممکن محسوس ہو اُسے فوری طور پر خدا کے دربار میں پُہنچا دیتے ہیں کہ کوئی مدد کردیجئے کوئی کرشمہ ہوجائے۔


آج کل لاہور میں موسم بہت عجب ہے سارا دن بادل برستے ہیں شام کو پورا آسمان بادلوں کا بسیرا بن جاتا ہے پھر رات کو ایسی اوس برستی ہے کہ سردیوں کا گمان ہوتا ہے یہی کوئی تین دن پہلے کی بات ہے شام کے وقت مغرب کی اذان سے آدھ گھنٹا پہلے کا وقت تھا مگر سورج کا نام و نشان نہیں تھا پورے آسمان پر نیلے سفید گلابی اور نارنجی رنگ کے عجیب و غریب بادل پھیلے تھے مجھے ویسے بھی بادل دیکھنے کا شوق ہے میں چارپائی پر بیٹھ کر آسمان دیکھ رہی تھی کہ ایک دم بادل اوپر اُٹھتے محسوس ہوئے اُونچے اور اُونچے وہ درحقیقت وہ اپنی جگہ پر ہی موجود تھے مگر میں نے نوٹس کیا کہ بہت زیادہ دیر تک بادلوں کو غور سے دیکھنے سے وہ اب زیادہ دور محسوس ہونے لگے تھے چیزوں کو بہت زیادہ دیر غور سے دیکھا جائے تو وہ اتنی اُونچی ہو جاتی ہوں گی ؟ یا دھیان لگانے سے ہی کسی کی اصل اُونچائی کا احساس ہوتا ہوگا .

پھر کچھ منٹ بہت غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ارؔے یہ کیا ہے؟ پرندے جو بادلوں کے سامنے سے گزر رہے تھے یہ پرندے اتنی اونچی پرواز کررہے تھے کہ بہت دیر تک لگاتار آسمان کو دیکھتے رہنے پر انکا احساس ہوا ورنہ جلدی جلدی میں ایک نظر ڈالی اور ہٹا لی تو پھر یہ کبھی نظر نہ آتے پرندوں کی قطاریں passive flight  کرتی ہوئی مغرب رُخ آسمان میں نہ جانے کہاں گم ہوتی جاتی اور نئے پرندے آجاتے.
 موسم اتنا اچھا نہیں تھا بارش کے باٰعث تھوڑا حبس بھی ہوگیا تھا مگر موسم کا آسمان کے جلوے سے کوئی تعلق محسوس نہ ہوا ، اورنج ،ہلکے گلابی اور ہلکے آسمانی رنگ کے بادلوں کا ایک ایسا عجیب pattern  بنا تھا جس کو صرف دیکھا ہی جاسکتا ہوگا میں نے محسوس کیا ایسا pattern  تو کبھی کسی لان کے سوٹ پر نہیں دیکھا جاسکتا کسی بیڈشیٹ پر نہیں کسی پینٹنگ پر بھی نہیں یہ انسان کے بس کی بات نہیں کہ کچھ ایسا عجیب و حسین آرٹ کا نمونہ تیار کرلے ۔صرف تین چیزیں سامنے پھیلی تھیں وسعت ، رنگ اور pattern  جو اس اونچائی پر تھی کہ ساری دنیا بہت چھوٹی معلوم ہورہی تھی .یہ زمین کے عزت بے عزتی کے کھیل، یہ رنج و غم کی بازیاں، یہ کچھ ہونے کا یا نہ ہونے کا ڈر کتنا نیچے تھا اور بادل کتنے اُونچے تھے , سورج بالکل نظر نہیں آرہا تھا مگر ہر لمحے گھٹتی ہوئی روشنی سے اس بات کا احساس دے رہا تھا کہ میں بادلوں کے پیچھے سے نیچے گر رہاہوں ابھی مجھے کوئی کیچ کرلے گا اور مشرق میں دھکیل دے گا یہاں وہ نقطہ تھا جسے ماریہ مراقبہ کہتی ہے یہی مراقبہ ہوتا ہوگا جس نقطے پر دھیان دینا تھا آنکھیں گاڑھے رکھنی تھی ایسا دھیان جو کوئی سوچ کوئی فکر کوئی آواز توڑ نہ پائے وہ سکون جہاں سے کبھی لوٹنے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔ ایسی نہج کے بادل ایسے خوبصورت رنگ اور pattern  پرندوں کی آزاد اُونچی اُڑانیں اس سے زیادہ خوبصورت بھلا کیا ہوسکتا تھا کایئنات میں؟

اچانک پھر وہ آگیا ! شمال سے تیرتا ہوا بہت اُونچی پرواز کرتا ہوا ہوائی جہاز ،دن کے وقت ہوائی جہاز کی لایئٹیں بند ہوتی ہیں اور رات کے وقت صرف لایئٹیں نظٰر آتی ہیں اور ہوائی جہاز نہیں، یہ کومن سینس کی بات ہے مگر یہاں بھی منظر کچھ عجیب تھا جہاز کی ساری لائیٹیں بھی چل رہی تھیں اور جہاز بھی صاف نظر آرہا تھا ۔چونکہ مغرب کا وقت تھا اسلئے جہاز کی لایئٹیں روشن تھیں مگر جہاز ہلکی نارنجی روشنی میں صاف نظر آرہا تھا ایسے جیسے کوئی بچوں کا کھلونا ہوتا ہے اب وہ کھلونا تیزی سے مغرب کے بادلوں کی سمت سفر کررہا پھر کیا ہوا ایک لمحے کو جہاز نظر آتا اور دوسرے لمحے بادلوں کی اُوٹ میں چھپ جاتا پھر صاف آسمان والے حصے میں آتا اور پھر بادلوں والے حصے میں چھپ جاتا ایسے چھپتے دِکھتے جہاز مغرب کے سورج کی طرح بالکل غایب ہوگیا۔

 واؤ واؤ میرے اندر کے انسان نے تالیاں بجایئں انسان کی عظمت پر رشک کیا مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے ہوائی جہاز بس ایسے مناظر میں آسمان کی بلندیوں پر گھومنے والا ایک کھلونا ہوتا ہے جو آتا ہے اور مراقبے کا منظر مکمل کردیتا ہے سب جیت گئے انسان کی بھی جے جے ہوئی منظر مکمل ہوگیا جہاز کے اندر بیٹھے خوش نصیبوں کو معلوم ہوگا وہ کیسے نقطے میں سے گُزرے ہیں ؟ ہاں ضرور ہوگا ،یہ  سارا منظر دیکھنا مراقبہ ہوتا ہے ، مجھے یہ نہیں معلوم کہ نصابی اور درسی مراقبہ کیسا ہوتا ہے مگر یہ ہی مراقبہ ہوتا ہے جو انسان کو سب بھُلا دے مگر پھر بھی عظمتوں میں دھکیل دے جو یہ احساس ختم کردے کہ کچھ غلط ہوا ہے سب چھوٹی باتیں چھوٹی ہی محسوس ہونے لگے اور بڑائی اور اُونچائی اپنا منتر پھونکنے لگتی ہے یہی مرقبہ ہوتا ہے . ہونا تو ایسا ہی چاہیے
(فریحہ فاروق)
یہ ہمارے مغرب کی تصویر ہے مگر اُس دن کی نہیں ہے 
یہ ہمارے مغرب کی تصویر ہے مگر اُس دن کی نہیں ہے 



Sunday, August 26, 2012

احساسِ کمتری


پہلی بات تو یہ کہ مجھے جتنی گزشتہ پوسٹس پر کمنٹس موصول ہورہے ہیں اُس میں لوگ کہتے ہیں "تحریراچھی ہے" حالانکہ میرا خیال ہے میری پوسٹس کو "باتیں" گردانا جائے ،جھوٹی سچی جیسی بھی ہیں یہ سب باتیں ہیں ان کو میں نے تحریر کی طرح سوچ سمجھ کر،تحقیق کرکے  نہیں لکھا conscious  ہو کر نہیں لکھا کہ کوئی تحریر لکھی جارہی ہے بس باتیں کی ہیں یا یوں کہیں کہ باتیں بنائی ہیں باتوں کی کوئی خاص زبان نہیں ہوتی کوئی طے شدہ ایجنڈا نہیں ہوتا بس ایسے جیسے کبھی سالوں پہلے لوگ خط لکھا کرتے تھے ویسے اب open letters  لکھتے ہیں اُنہیں ہم بلاگ پوسٹ کہہ دیتے ہیں یہ بھی ایک luxury ہی ہے سب سے باتیں کرنا اتنے سارے لوگ آپکی باتیں سُن رہے ہیں اس بات پر کتنی خوشی ہوتی ہے یہ باتوں کے رسیّا لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں جیسے دورانِ گفتگو ہم چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ میری بات سُن لو میری بات سُن لو یہاں پر اپنی باتیں سُنانے کے لئے آوازیں بھی نہیں لگانی پڑتیں خدا کا کرم ہوتا ہے کہ لوگ خود خوشی بخوشی آپکی باتیں سُنتے ہیں پھر سُن کر باتیں بھی نہیں سُناتے تو اتنی وضاحت کافی ہے آگے بڑھتے ہیں آج ہم آپکو آپ سب لوگوں کے بچپن کی ایک کہانی یاد دِلایئں گے آپ میں سے بہتیروں نے تو یہ کہانی سُن رکھی ہوگی اس لئے دوبارہ سُن لیجئے بہت سے ایسے بھی ہوں گے بچپن میں ایسی کہانیاں مِس ہوگئی ہوں گی جیسے مجھ سے جوانی میں بہت سی باتیں مِس ہوگئی ہیں تو بات بے بات کہانی یہ ہے کہ
"ایک کھنکھجورا تھا ،سو ٹانگوں والا کھنکھجورا جسے ہمcentipede  کہتے ہیں سارا دن اپنی خوراک تلاش کرتا ہنسی خوشی زندگی بسر کرتا ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتا کھاتا پیتا موجیں اُڑاتا پھر ایک دن کچھ یوں ہوا کہ کچھ لوگ اُسے ملنے آئے اور اُن میں سے کسی نے کھنکھجورے سے پوچھا بھئی ہم تو تمہیں دیکھ دیکھ کر محوِ حیرت ہیں ، کھنکھجورے نے پوچھا مجھ میں ایسی کیا حیرت کی بات ہے ؟ اُنہوں نے جواب دیا ہمیں حیرت ہے کہ آپ کی سو ٹانگیں ہیں اور پھر بھی بھاگے دوڑے پھرتے ہیں آخر ایسا کیوںکر ممکن ہے ؟ سو ٹانگوں کے ساتھ کوئی کیسے چل سکتا ہے؟ کھنکھجورا حیران ہوگیا بولا "کیا واقعی میری سو ٹانگیں ہیں؟ کیا واقعی میں سو ٹانگوں کے ساتھ اتنی پُھرتی سے چلتا پھرتا ہوں؟" "ہاں ہاں آپکی سو ٹانگیں ہیں" جواب سُن کر تو کھنکھجورے کا دل بیٹھ گیا کھنکھجورے کو تو کبھی معلوم ہی نہ تھا کہ اُسکی سو ٹانگیں ہیں مگر جب سے اس راز پر سے پردہ ہٹا کھنکھجورے کی ساری زندگی بدل گئی اب وہ ہر وقت یہی سوچتا کہ میں کیسے چل سکتا ہوں ؟ پہلے کونسا پاؤں اُٹھاوں دوسرا پیر پہلے اُٹھاؤں یا چھبیسواں میرا اُنتیسواں پاؤں پہلے آگے پڑنا چاہیے یا دائیں طرف کا چالیسواں ؟کیا مصیبت ہے یہ سو ٹانگوں کے ساتھ چلنا تو ناممکن ہے کھنکھجورے کو سمجھ ہی نہ آیا کہ کیسے چلا جائے اور اس دن کے بعد وہ کبھی نہ چل سکا نہ اپنی خوراک تلاش کرسکا اور وہیں پڑا پڑا مر گیا۔
یہ خود آگاہی ہوتی ہے ، لاشعور سے شعور کا سفر ہوتا ہے یا نہ جانے یہ کیا ہوتا ہے، کھنکھجورے کی یہ کہانی سب نے بچپن میں سُن رکھی ہے مگر مجھے اُس وقت یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب میرا حال بھی ویسا ہی ہوگا جو سو ٹانگوں والے کھنکھجورے کا ہوا، ہم میں سے بہت سے لوگوں کے ساتھ مجبوریوں ،کمتریوں یا کچھ الگ خصوصیا ت کی چھاپ ہوتی ہیں مگر ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا ہم بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں منصوبے بناتے ہیں مگر ایک دن کچھ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ آتے ہے اور آپکو چُپکے سے بتا جاتا ہے کہ آپکی سو ٹانگیں ہیں اب ایک سو ٹانگوں والا انسان دو ٹانگوں والے انسان کے آگے بےبس سا محسوس کرتا ہے ۔ پہلے بھی تو یہ سب مسئلے تھے پہلے بھی زندگی ایسی ہی مشکل تھی پہلے بھی حالات اور مجبوریوں نے پاؤں جکڑے ہوئے تھے مگر ہم پھر بھی دوڑے پھرتے تھے اب ہم میں جب سے خود آگاہی کا زہر گُھلا ہے ہم کچھ نہیں کر پاتے ۔میں کیسے چل سکتی ہوں ؟ خدایا میری ہی سو ٹانگیں کیوں ہیں؟
 یہ احساسِ کمتری self discovered  نہیں ہے ابھی بھی اگر ہمیں لوگ نہ بتاتے تو ہمیں کبھی معلوم ہی نہ ہوتا کہ ہماری سو ٹانگیں ہیں اس بات کا ہمیں احساس کروایا گیا ہے زبردستی ہماری آنکھیں کھولی گیئں ہیں میں گھنٹوں یہی سوچتی رہتی ہوں کہ کیا پہلے بھی سب کچھ ایسے ہی تھا ہاں پہلے بھی سب ایسے ہی تھا حقیقتیں نہیں بدلی بس اب محسوس ہونے لگیں ہیں "میں نہیں کرسکتی ، میں کیسے کرسکتی ہوں، ہا ہائے یہ میں کبھی بھی نہیں کرسکتی" بس اب یہی زندگی میں رہ گیا ہے اپنی کمزوریوں اپنی حقیقت سے سامنا کرنا بہت مشکل بات ہے مجھے اِس بات کا کبھی علم ہی نہیں تھا کہ یہ "اوقات" کیا ہوتی ہے اور اب احساسِ کمتری نے اپنی اوقات کے دندل میں پھینک دیا ہے اب ہمیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ "اپنی اوقات میں رہو" کیونکہ پہلے ہمیں اپنی اوقات یاد نہیں تھی اور اب بھولتی نہیں ہے، کیا ہم دوبارہ چل پائیں گے؟ کیا سو ٹانگوں کے ساتھ چلا جاسکتا ہے؟ کیا ہماری اوقات ہی ہماری پہچان بن جائے گی؟ لوگ ہمیں خود سے روشناس کروانے پر کیوں تُلے ہوتے ہیں؟ کیا احساسِ کمتری کے علاوہ بھی کوئی اور احساس ہوتا ہے؟ تو آخر وہ ایسے محسوس کیوں نہیں ہوتا جیسے یہ ہوتا ہے؟ دیکھتے ہیں ہم سب دیکھتے ہیں سو ٹانگوں والا کھنکھجورا کہاں تک چل پائے گا اور وہ بھی ایسا کھنکھجورا جسے اپنی سو ٹانگوں کا علم بھی ہے ، مگر کاش ہمیں خود آگاہی نہ ہوتی ہمیں خود سے متعارف ہی نہ کروایا گیا ہوتا ہم کتنا خوش تھے ،لاعلمی بھی بعض اوقات کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔

Monday, August 13, 2012

اقبال__ میری لاگ اور لگاؤ کی نظر میں

ممتاز مفتی کی طرح میری نظر بھی لاگ اور لگاؤ سے پاک نہیں ہے میں جو بھی اس تحریر میں لکھوں گی صرف اپنی ںظر کے مطابق لکھوں گی حالانکہ یہ پوسٹ اقبال کے بارے میں ہے مگر میں اس میں سب کچھ اپنے بارے میں لکھوں گی کیونکہ ایک بلاگ پوسٹ میں اقبال کیسے سما سکتا ہے وہ بہت بڑا انسان ہے میرا اور اقبال کا تعلق اتنا محدود ہوسکتا ہے کہ ایک پوسٹ میں سما جائے مگر اقبال پر اتنی ضخیم کتابیں لکھی گئی وہ اُن میں نہ پوری طرح سما سکا میری ایک بلاگ پوسٹ میں کیا سمائے گا۔
میں نے لوگوں سے ایک سوال پوچھا ہے کہ "آپ نے اقبال کو کس عمر میں پڑھنا شروع کیا؟"۔ سب کے جوابات کے مطابق text books  میں پہلی جماعت میں ہی اقبال کی "بچے کی دعا " شامل ہے تب سے لیکر بارہویں جماعت تک ہر ایک نے نصابی کُتب میں اقبال سے ملاقات کی ہے مگر میرا سوال تھا کہ غیرنصابی اقبال کو کب پڑھنا شروع کیا ؟ خوشقسمتی سے ایسے لوگوں کی بہتات ہے ہمارے ملک میں جنہوں نے شروع عمر  سے اقبال کو پڑھا۔یہی سوال میرے سے پوچھا جائے کہ اقبال کو کس عمر میں پڑھنا شروع کیا؟ تو جواب کچھ یوں ہے کی جیسے ہی میں نے پریپ کلاس پاس کی اور میرے ماں باپ کو یقین ہوگیا کہ اب ہماری بیٹی "پہلی" جماعت میں جائے گی اُنہوں نے میرے سامنے ایک پتلی سی رسالہ نما کتاب رکھ دی ایک صفحہ کھولا گیا اور کہا گیا "آ بابا آ" والا قاعدہ پڑھ لیا ہے اب اسے پڑھ کر دکھاؤ نظم کا نام "ہمدردی" تھا میرا یقین کیجیے جن کی زندگی میں درد آنا ہوں اُن کی زندگی میں درد آنے سے پہلے اقبال کی "ہمدردی" ضرور آتی ہے ۔بامشکل پانچ سال کی عمر میں اقبال کی "بانگِ درا " سے ملاقات ہوگئی ،نظم سنائی، والدین خوش ہوگئے. کچھ ماہ بیتے ہو ں گے گھر میں ایک فریم کی ہوئی بڑی سی تصویر آگئی پوچھنے پر معلوم ہوا یہ حضرت علامہ اقبال ہیں میں حیران اور پریشان تھی یہ کیسی تصویر ہے یہ کیسا pose  ہے میں بار بار تصویر کو جاکر دیکھتی رہتی پہلے مصنف کا کلام گھر آتا ہے خدا کی مہربانی دیکھیئے پھر وہ خود ہی گھر آجاتا ہے میں نے پاپا سے پوچھا پاپا یہ علامہ اقبال کو چیل پالنے کا کیوں شوق تھا ؟ پاپا نے کہا یہ کس نے کہا ہے تمہیں ؟ میں نے جواب دیا اس تصویر میں علامہ اقبال کے پیچھے جو چیل ہے اُنہوں نے خود نہیں پالی تھی؟ یہ چیل اُنہیں کچھ کہتی نہیں تھی؟ اُنہیں اس سے ڈر نہیں لگتا تھا؟ پاپا نے چیل کا تعارف کروا دیا چیل اصل میں "شاہین" تھی اب ہر وقت گھر میں اقبال کی "سوچتے ہوئے" کی پوز تصویر بیک گراونڈ میں شاہین کے ساتھ میری توجہ کا مرکز بنی رہی گھر میں اقبال تھا تو سکول میں بھی اقبال ہی اقبال تھا۔ سکول کی اسمبلی میں سٹیج پر روز بچے ہاتھ میں موم بتی پکڑے "لب پہ آتی ہے دعا" پڑھتے ۔ PTV  پر اُنہی دنوں میں ایک نظم نشر ہوئی "پرندے کی فریاد"
"آتا ہے یاد مجھکو گزرا ہوا زمانہ وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آذادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلوں کی اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا"
یہ کیا تھا؟ زندگی میں ٹریجیڈی سے تعارف ہوگیا ۔جو قید اور آزادی کے درمیان چھُپی تھی ۔اب اقبال اور نئے طریقوں سے ملنے والے تھے اب تک میں نے صرف پُتلی تماشے ہی تھیٹر میں دیکھے تھے کہ پاپا نے کہا آج 9 نومبر ہے آج ہم الحمرا ہال میں اقبال ڈے کا شو دیکھنے جائیں گے اُس وقت میری عمر آٹھ سال تھی یہاں آکر اقبال صرف بچوں کا شاعر نہیں رہا "ایک پہاڑ اور گلہری" "ایک گائے اور بکری" ،"ماں کا خواب" صرف اقبال نہیں تھے مجھے معلوم ہورہا تھا کہ بھئی یہ اقبال تو کچھ اور ہی ہیں تقریب میں بڑے بڑے لوگوں نے بڑی بڑی تقریریں کیں جو ساری میرے سر کے اوپر سے گزر گئی مگر یہ محسوس ہوگیا کہ یہ کوئی عام شاعر نہیں ہیں پاپا نے صحیح کہا ہوگا جو تصویر گھر میں ہے اُس میں اقبال کچھ بہت بڑا سوچ رہے ہیں وہ پاکستان کے بارے میں سوچ رہے ہیں وہ پاکستان کے خواب کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
اب تو ایک سلسلہ اقبال چل نکلا میں تیسری جماعت میں پڑھتی تھی کہ ایک وفد چایئنہ سے خاص طور پر لاہور دیکھنے آیا تھا وہ سکول کے دورے کے لئے آئے مجھے حیرت ہورہی تھی کہ اب یہ چینی لوگ ہم سے کیا باتیں کریں گے انہیں اُردو بھی نہیں آتی ہوگی مگر جب وہ ہماری کلاس میں وارد ہوئے اور اُس کے بعد جوحرکت اُنہوں نے کی میں ہکابکا رہ گئی اُنہوں نے بلیک بورڈ پر اُردو لکھی اور اُردو میں لکھا تھا "شاعرِ مشرق" اور کہا بچوں کیا آپ بتا سکتے ہیں شاعرِ مشرق کون ہیں؟ یہ سوال چین کے باشندے پوچھ رہے ہیں اور ساری کلاس نے جواب دیا "علامہ اقبال" وہ سب چھ یا سات لوگ اقبال کے بہت بڑے fan  تھے اُن کے لئے لاہور کی سب سے بڑی پہچان یہی تھی۔ایک آٹھ سال کے بچے کا راسخ عقیدہ بنانے کہ لئے کے اقبال ہی شاعرِ مشرق ہیں یہ واقعہ کافی تھا یہ بہت کم واقعات ہیں میرے بچپن کے جو مجھے بہت واضح طور پر یاد ہیں غیر واضح اور بھی بہت سی یادیں ہیں جن میں اقبال کی شمولیت ہے جیسے چُھٹی کے دن شاہی قلعے جانا مزار اقبال میں حاضری دینا ۔اقبال کے بچپن کے بےتہاشا قصّے ہوں گے جوپاپا نے سُنائے جن میں سے مجھے یاد رہ گیا کہ اقبال ہمیشہ اپنی کلاس میں دیر سے آتے جب ماسٹر پوچھتا کہ اقبال دیر سے کیوں آتے ہو تو جواب دیتا "کہ اقبال ہمیشہ دیر سے ہی آتا ہے" یہی سچ ہے دوستوں کوئی بھی پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھتے بلندی پر نہیں پہنچ جاتا بلندی ہمیشہ تھوڑی دیر سے آتی ہے۔
اب سکولوں میں کیا ہوتا ہے؟ مجھے معلوم نہیں ہے مگر یہ وہ دور تھا نّوے کی دہائی کا جب اقبال ہی سکولوں میں غالب تھا پھر ایک دن جب میں پانچویں جماعت میں پڑھ رہی تھی پاپا کہتے ہیں اُردو لکھنی نہیں آتی تم لوگوں کو اِملا کیا کرو اب لکھواتے اِملا تھے مگر لفظ لکھوانے کی بجائے ایسی سوچوں اورافکار کی پٹاری کھولتے تھے کہ پُرتجسس بچوں کی زندگی کا سکون برباد ہوجائے دس سال کے بچے کو اُردو کی اِملا میں لکھواتے تھے کہ ارسطو سقراط کا شاگرد تھا اور افلاطون ارسطو کا ۔ اب بچہ سوچتا رہتا یہ ہیں کون ارسطو ، سقراط اور افلاطون۔ ایک دن ایک فتنہ لکھوادیا دس سال کی بچی کو ،ایک پیراگرف اقبال کے بارے میں کہتے ہیں یہ لکھو کہ اقبال نے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اُن کا مضمون تھا "ایران میں مابعدالطبیعات کا ارتقاء" ۔پاپا کے مطابق اس سے آسان لفظ بچوں کے لئے نہیں ہوتے میں نے پوچھا یہ کیا ہوتا ہے "مابعدلاطبیعات" کہتے ہیں "غیر مادی چیزوں کا علم" مبارک ہو زندگی میں فلسفہ آگیا کیونکہ اقبال معلوم ہوا شاعر نہیں ہے میرا مطلب شاعر تو ہیں مگر حکیم الامت درحقیقت فلسفی بھی ہیں میں کیونکہ تھوڑی لالچی انسان ہوں میرا جی چاہا کاش جیسے شاعر اقبال سے ملاقات ہوتی ہے ویسے ہی فلسفی اقبال سے ملاقات ہوتی رہے۔ اقبال سے جو ملتا اُن کا گرویدہ ہوجاتا میں بھی ہورہی تھی پھر فلسفے کا راستہ چل نکلا کچھ 11 اور 12 کی عمر انگریزی اور تھوڑا سا فلسفے کو پڑھنے میں صرف ہوگئی کہ ایک دن اچانک ظالم حکومت نے انڈین چینلز بند کردئیے جی میں سارا دن فلسفے کی کتابیں پڑھنا اور ساری رات کیبل پر انڈین ڈرامے دیکھنا پسند کرتی تھی ساتویں جماعت میں ان چینلز پر پابندی لگ گئی اب ساری شام رات ویران ہوگئی پاپا کی چالاکی کی حِس جاگی سوچا بچوں کو نئی لائن پر لگا دوں گھر میں کلیاتِ اقبال کی دو کاپیاں موجود تھیں ایک میں معنی اور تشریح بھی تھے مگر پاپا ہمیشہ بغیر معنی والوں سے پڑھاتے، سٹار پلس کے ڈراموں کو دیکھنے والا وقت اب کلیات اقبال پر پاپا کے لیکچرز سُنتے گزارا جاتا پہلی نظم جو میں نے پڑھی وہ "شکوہ" اور دوسری "جوابِ شکوہ" تھی  میں نظم پڑھتی اور پاپا مجھے ساری تشریح سُناتے جاتے۔ اسطرح چینلز کی بحالی تک کلیاتِ اقبال دو سال تک تقریبا باقاعدگی سے پاپا نے پڑھائی۔ اس کے بعد پاپا نے اقبال نہیں پڑھایا وہ مصروف ہوگئے توجہ ہی نہ دی یا بس اُن کا کام تعارف کروانا ہوتا ہے ایک چیز سے ملوا کر چھوڑ دیتے ہیں آگے کا رستہ کہتے ہیں خود طے کرو ۔ اُس کے بعد جو ہوا اُس میں وقت کی شدید کمی تھی تربیت کے 6،7 سال پورے ہوچکے تھے ماں باپ تعلیم کے حوالے کرکے بچوں کو بھول جاتے ہیں مگر کہیں بھی اقبال absent  نہیں ہوئے میری کلاس فیلوز شاعر صفت نکل آئیں میٹرک میں روز خودی پر بحثیں چھڑ جاتیں پورے دو سال میٹرک کے ہم نے اقبال کی خودی میں سر دھنسائے رکھا۔ اُس کے بعد کے حالات مجھے صاف صاف یاد نہیں ہیں میری یاداشت کی طاقت ascending  نہیں descending order  میں چلتی ہے جتنا مجھے ماضیِ بعید یاد ہے ماضی قریب اُتنا ہی دھندلا ہے مگر کچھ باتیں جو یاد رہ گئی ہیں ان میں بھی اقبال شامل ہے جیسے دسویں جماعت میں سکول کے کچھ بچوں کو اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک تقریب میں بلایا گیا میں نے وہاں پہلی مرتبہ جاوید اقبال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اقبال کا بیٹے کو دیکھنا حالانکہ یہ ایک معمولی بات تھی مگر میری عقیدت بہت زیادہ ہے اسلئے یاد رہ گئی حال میں بھی میں اُن کو دیکھا ہے اور بہت عاجز انسان پایا ہے ۔ہم نے سوچا "زندہ اقبال"تو نہیں دیکھا "زندہ جاوید" دیکھ لیا۔ ماریہ عمر اور ماریہ اقبال دونوں نے اقبال کو پڑھا ہوا تھا دونوں کے گھر کلیاتِ اقبال موجود تھی اب بھی ہے دونوں کے والدین اقبال شناس تھے اور کیا چاہیے تھا ۔مگر اقبال کا جنوں تھا سر چڑھ کر بول رہا تھا میں ساری رات
"نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی" پڑھتی
ماریہ آتی ہے کالج میں "علم اور عشق" زبانی یاد کی ہوئی ہے ایک صفحے پر لکھ کر بھی لائی ہے واہ واہ ہوتی ہے ۔اسی طرح کالج کے دن تھے یا سکول کے مجھے یاد ہی نہیں ہے وقت کے بارے میں کچھ مگر میرے گھر میں لاتعداد ایسی کتابیں نکل آتی جس میں اقبال کی شخصیت نگاری کی گئی تھی ایسی باتیں معلوم نہ ہونا بھی المیہ ہوتا ہے کہ شاعر پڑھ لیا مگر اسکی زندگی نہ پڑھی ایسے لاتعداد واقعات ہیں اقبال کی زندگی کے انسان ان کی عقل و فہم کا قائل ہوجاتا ہے ۔طلبا کا گروہ ملنے آتا ہے اقبال سے جاتےہوئے کہتا ہے سر آپ ہمیں کوئی پیغام دیجیے اور اقبال کی حِس لطافت جواب دیتی ہے کہ آج تک میں نے جو بھی لکھا ہے سب آپ نوجوانوں کے نام پیغام ہے آپ میرا پہلا پیغام تو پڑھ لیجئے پھر اور کی گزراش کریں ۔
سر سے یاد آیا کہ کیسے اقبال نے یہ شرط برٹش گورمنٹ کے سامنے رکھی کہ میرے استاد محترم سیّد میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دیجئے پھر میں "سر" کا خطاب قبول کروں گا۔ اس طرح کے ہزاروں واقعات ہیں جو کتابوں میں بھرے پڑے ہیں جنہیں کوئی بھی باآسانی پڑھ سکتا ہے۔ اقبال کی پرسنل زندگی کو جاننا اقبال کا حُقہ ،دمہّ ، بیوی اور بچے اُن کا حضرت داتا گجن بخش سے لگاؤ اقبال کا مذہب سے لگاؤ، اقبال کی ہر بات ان کی سوچ کی عکاس تھی جو سب کتابوں میں درج ہے۔ اقبال نے شاعری "پیغمبری" سمجھ کرکی۔
بارہویں جماعت کے بعد جب ہر کوئی سوچتا ہے کہ اب آگے کیا کریں گے اور یہاں مجھے فکر پڑی رہتی "اب کیا کریں گے اقوامِ مشرق" "پس چہ بائد کرد اے اقوامِ مشرق" فارسی میں تھی مگر اس کتاب کا ترجمہ انسان کو بے چین بے قرار کردیتا ہےکہ دنیا میں ہو کیا رہا ہے۔ پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ یہ کتاب ضرور پڑھئیے "حکمتِ فرعونی" ضرور پڑھیے یہ بہت سادہ اور آسان فہم کلام ہے اقبال کا۔
کچھ سال پہلے a spotlight on spotless Islam”" پڑھنے کی کوشش کی ہے یہ کتاب بھی اقبال کے فلسفہ نثر اور فلسفہ شاعری کے کھلے تضاد پر تنقید تو ضرور کرتی ہے مگر شاعری کی افاقیت اور برتری کو تسلیم کرتی ہے۔ اقبالیات پر بےتہاشا کتابیں موجود ہیں مگر ایک اچھی اور صحیح کتاب سو کتابوں پر بھاری ہوتی ہے۔ اقبال کی تصنیف "Reconstruction of Religious Thoughts in Islam”  ایک ایسی کتاب ہے جو ہم میں سے بہت سے لوگوں کی facebook  کی فیورٹ کتابوں کی لسٹ میں ہے بہت سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ یہ کتاب پڑھ چکے ہیں مگر مجھے اس بات پر شک نہیں کہ اُنہوں نے یہ کتاب پڑھی ہوئی ہے مگر اس بات پر شک ضرور ہے کہ ان سب لوگوں کو کیا یہ کتاب سمجھ بھی آئی ہے ؟کیونکہ پوری کتاب میں اقبال نے تمام بڑے بڑے فلاسفروں اور سایئنسدانوں کی تھیوریوں کا موازنہ قرآنی آیات سے کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اسلام ہی وہ واحد حقیقت ہے جو سب سے برتر ہے مگر اس کے لئے تمام مغربی فلاسفروں کی افکار اور نظریات کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آج تک اتنے سال گزرنے کے بعد بھی جدید نظریات اور سوچ کے درمیان میں عالمی لیول پر اگر آپ اسلام کا مقدمہ لڑ سکتے ہیں، اسلام کو defend  کرسکتے ہیں تو آپ کو اُس عقل کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے جو اقبال نے اس کتاب میں حل کردی ہے ۔ آج کل ایک کتاب میرے ہاتھ میں ہے جس کا نام ہے "Iqbal and post Kantian Voluntarism" جس میں تمام بڑے مغربی فلسفیوں Bergson ,Nietzsche, Goethe اور  Milton  سے اقبال کے فلسفے کا موازنہ کیا گیا ہے اور اقبال کی سوچ پر ان سب کا اثر بیان کیا گیا ہے۔" شرحِ اسرار خودی "پڑھنے کے قابل ہے "اسرارِ خودی" کا ترجمہ بہت سی زبانوں  میں کیا گیا ہے اقبال کی زندگی میں ہی اس کتاب کا انگریزی ترجمہ کر لیا گیا تھا اور بہت سے مغربی مفکر اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اقبال کے قائل تھے ۔ اقبال نے passive  تصوف کے خلاف لکھا۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اقبال صرف کتابوں تک ہی محدود ہے زندگی میں ؟ نہیں اقبال سے سوال بھی پوچھے جاتے ہیں اور اقبال جواب بھی دیتے ہیں  abnormality اور  adventure  کیوں انسان کے اندر سرایئت کیا ہوا ہے؟ اس کا جواب اقبال ہی دیتے ہیں کہ دیکھو
 "میں تراشتا ہوں ،پونجتا ہوں اور توڑ دیتا ہوں"

اقبال سے پوچھا گیا ہے کہ زندگی برباد ہوگئی ہے اب کیا کریں ؟ اس کا جواب بھی اب اقبال ہی دیں گے۔ کیا اقبال کتابوں کی دنیا سے باہر نہیں ہے؟ تو ایسا نہیں ہے آیئں real world  میں داخل ہوتے ہیں یقین کریں اقبال کہیں بھی پہنچ جاتے ہیں مثال کے طور پر پنجاب یونیورسٹی کا نام تو ہم سب نے سُنا ہی ہوا ہے اقبال یہاں بھی ہیں۔  جس کا نام ہی اقبال کے نام ہے اُس علامہ اقبال کیمپس میں "اقبال گیلری" بھی موجود ہے صبح شام آتے جاتے لوگ اقبال سے روشناس ہوتے ہیں اس گیلری میں اقبال کی زندگی کے مختلف ادوار کی یادگار تصویریں لگیں ہیں اور پوری گیلری میں پاکستان کے مشہور پینٹر "اسلم کمال" کی وہ پینٹگز لگائی گئی ہیں جن میں اسلم کمال نے اقبال کی شاعری کو تصویروں میں ڈھال دیا ہے اور ہر پینٹنگ سے متعلقہ شعر اس کے نیچے بمعہ انگریزی ترجمہ درج ہے۔اقبال کے شعروں میں گہرائی موجود ہے جو بار بار repeat  ہونے پر بھی اپنا ذرا سا بھی اثر نہیں کھوتیں ۔ گیلری کے ایک کنارے اقبال کی مغربی لباس میں تصویر ہے اور دوسرے کنارے اقبال نے مشرقی لباس اور شال اُوڑھی ہےیہ جگہ اپنی مثال آپ ہے اور اسکا سبب بھی اقبال کا سحر ہی ہے اقبال کی popularity  ہی ہے۔آیئں آپ کو یہاں کی سیّر کرواتے ہیں ۔






اقبال گیلری میں موجود پینٹنگز


















 




  ابھی اتنا بور ہونا کافی ہے مگر ایک بات یاد رکھئے یہ سب پاکستان میں ہوتا ہے اور یہ پاکستان ہے اقبال "شاعرِ مشرق" بھی ہیں اور "مفکرِپاکستان" بھی ہیں۔

 الله آپ سب کو خوش رکھے۔آمین


Monday, August 6, 2012

شناخت یا آیئڈیولوجی ؟




ایک سوال ہے میرے سامنے کہ میں کیا بنوں؟ یہ وہ وقت ہے زندگی کا جب میں اپنا پروفیشن منتخب کر چکی ہوں اب مسئلہ یہ نہیں ہے کہ میں نے ڈاکٹر ، انجینیر یا پایلٹ یا صحافی یا مصنف یا بینکر بننا ہے اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ میں ideologically  کیا بنوں؟ ایک لِسٹ ہے آدرشوں کی میرے سامنے جو میں اپنا سکتی ہوں مثال کے طور پر میں بن سکتی ہوں
·         لبرل liberal
·         فاشسٹ fascist
·         کنزرویٹِو conservative
·         سوشلِسٹ socialist
·         نیشنلسٹ nationalist 
·         سیکولر secular
·         تھیولوجِسٹ theologist
·         ہیومنسٹ humanist
·         فیمینیسٹ  feminist
·         Fundamentalist
·         Rationalist
·         کلچرِسٹ
·         کومیونیسٹ communist
·         Sophist
·         Marxist
·         Activist
·         Revolutionist
·         مُلا
کیونکہ میری یاداشت کمزور ہے لہذا بہت سے الفاظ میرے دماغ میں نہیں آرہے یہ محض چند لفظ نہیں ہے بلکہ ہر لفظ کی تہہ میں ایک پوری آیئڈیولوجی چھپی ہوئی ہے۔ میں ان کے خلاف ہر گز نہیں ہو مگر جب بھی میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنانے کی کوشش کی تو میں پورے دل سے نہیں کرپائی ایسا نہیں میں نے کوشش نہیں کی مگر میرے دماغ میں بچپن سے ایک ہی concept  سرایئت کیا ہوا ہے کہ یا تو چیزیں غلط ہوتی ہیں یا صحیح اب مجھے جب بتایا جاتا ہے کہ دیکھیں لبرل کے لئے ایک چیز صحیح  ہو سکتی ہے مگر کنزرویٹو کے لئے وہی بات غلط تو مجھے ہضم نہیں ہوتا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے بھلا؟ ایک مثال اور ہے کہ آپ کی آیئڈیولوجی کیا ہے اور آپ کے والدین اور خاندان والوں کی آیئڈیولوجی کیا ہے؟ پہلے ایسے ہوتا تھا کہ میرے کسی دوست کے والد کا تعارف ان کا پروفیشن ہی تھا اب ہم چیزوں کو کسی اور طرح بیان کرنا سیکھ گئے ہیں آپ اِسے ہماری چالاکی کہہ سکتے ہیں کہ جن سوالوں کا جواب میرے پاس پہلے نہیں ہوتا تھا اب ہے ۔ اب اگر میرے والدین مجھ سے پوچھتے ہیں کہ فلاں لڑکی اتنی آذاد کیسے ہے؟ تو میں فوری جواب دیتی ہوں کیونکہ اُس کے والدین لبرل ہے یا پہلے میرے سے پوچھے جانے والے سوالوں کا جواب میرے پاس نہیں تھا اب میں اُن سوالوں کا جواب ایسے دیتی ہوں میں یہ یہ یہ یہ یہ سب نہیں کرسکتی کیونکہ میرے والدین کنزرویٹیو ہیں اس سب آیئڈیولوجیز سے ہمیں کافی رہنمائی مل رہی ہے لوگوں کو اپنے رویے سمجھانے اور دوسروں کے رویے سمجھنے میں ، مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپکو کہا جاتا ہے
Why not you leave your parents if they are conservative?
 میں اُنہیں صرف اس بات پر نہیں چھوڑ سکتی کہ وہ  conservative ہیں جو struggle  اُنہوں نے اتنے سالوں میں  میرے لئے کی ہے وہ تو دوسرے نہیں جانتے صرف یہ ایک لفظ جان جانے سے اُنکی آیئڈیولوجی کا ،وہ کیسے ایسا سوچ سکتے ہیں ۔ مسئلہ یہاں شناخت کا آجاتا ہے ۔ ہم میں سے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو صرف لبرل یا کنزرویٹیو یا سیکولر یا مذہبی کے دائرے کار میں محدود نہیں ہوسکتے میرے والدین لبرل ہیں کیونکہ ہم اکٹھے سینماوں میں فلمیں دیکھتیں ہیں اور کنزرویٹیو ہیں کیونکہ مجھے کہیں بھی اُنہیں بتائے یا اُن کے بغیر آنے جانے کی اجازت نہیں دیتے وہ چاہتے ہیں کہ ہم جب بھی باہر جایئں وہ ہمارے ساتھ ہوں ۔ اب وہ کیا ہیں ؟ میں کیا ہوں؟ وہ سیکولر ہیں وہ مذہبی ہیں ؟ ہم میں سے بہت سے لوگ کبھی نمازیں پابندی سے نہیں پڑھتے مگر مذہب کیلئے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں بہت سے ایسے بھی ہیں کہ مذہبی بہت ہیں نمازیں پڑھ لیتیں ہیں مگر مذہب کے نام ہر ایک بھی پیسہ نہیں خرچ کرسکتے تو آخر سیکولر کون ہے اور مذہبی کون ہے؟ میں ان میں سے کسی بھی آیئڈیولوجی کے خلاف نہیں ہوں مجھے معلوم ہیں ان آیئڈیولوجیز کے بل پر آج تک دنیا میں بہت کچھ اچھا ہوا ہے بہت سا امن ، مہذب معاشعرہ اور انسانی ہمدردی ۔انہیں کی گود سے نکلے ہیں مگر مجھے کہیں نہ کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان آیئڈیولوجیز میں اتنی زبردست طاقت موجود ہے کہ یہ انسان کی اپنی شناخت کو مس کردیتی ہیں مجھے "میں" بننا زیادہ پسند ہے ایک آزاد خیال ایک آزاد روح جو ان تمام تعصبات سے پاک ہو جس کے لئے صحیح بات ہی صحیح ہو اور غلط بات ہی غلط ہو ۔
کیا میں صرف اپنا آپ بن کر رہنا چاہتی ہوں ؟  یا لاشعوری طور پر ان تمام آیئڈیولوجیز کا ایک تصادم یا مکسچر بن کر رہنا چاہتی ہوں ؟ تصویر کا ایک اور پہلو بھی ہے ان آیئڈیولوجیز کا سسٹم زمانہ جاہلیت کے نسل و رنگ پرستی کے موافق بھی ہے کوئی کسی قبیلے کا ہے کوئی کسی نسل ہے ایک نسل سے تعلق رکھنے  والا اپنے آپ کو ہی افضل و برتر سمجھتا ہے یہ سب اختلافات ہیں جیسے اسلام آتا ہے اور سب کو ایک جھنڈے کے نیچے اکھٹا کرلیتا ہے ویسے کیا اسلام ہی ان سب آیئڈیولوجیز کے تضادات کو ختم کرسکتا ہے جو کہے کہ آپ سوشلسٹ ہیں یا کمیونیسٹ مگر اگر آپ مسلمان ہیں تو یہ زیادہ اہم اور بڑی بات ہے جو آپکو ساتھ جوڑے رکھے ۔ یا یہ سب آیئڈیولوجیز مذہب سے آزاد ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بن سکتا ؟
میں کیا بنوں میرے پاس یہی سوال ہے ۔ میں فطرت سے بہت ڈھیٹ انسان ہوں مجھے کبھی کسی بات پر آسانی سے رونا نہیں آتا مگر میرے ساتھ کیا ہوا کہ میں ایک کتاب پڑھ رہی تھی پچھلے سال ایک افسانہ اشفاق احمد کا "گڈریا"۔ میں بہت زیادہ صوفیانہ کام پڑھ چکی تھی اشفاق احمد کا مجھے بتایا گیا کہ یہ ایک ایسا افسانہ ہے جو لبرلز اور کنزرویٹیو دونوں میں یکساں مقبول ہے افسانہ پڑھتے ہوئے  یہ ایک ایسا مقام آیا جہاں میرے بے تہاشا آنسو بہے




یہ کیا تھا؟ داؤجی نے کہا کہ وہ بڑی لائق ہوگی اپنا سبق یاد کرتی ہوگی اور "مومن" ہوگی یہ کیسی شرط تھی، نظر یہ کہاں آکر ٹھہر گئی داو جی نے سچ میں ایسا کہا ہوگا اشفاق احمد نے تو اس وقت جب افسانہ لکھا کبھی بانو قدسیہ سے نہیں ملا ہوگا اُنہوں نے اتنا صحیح تُکا لگایا جو آگے جا کر سچ بھی ہوگیا ۔ "مومن" ہر مومن تو مسلمان ہوتا ہے مگر ہر مسلمان مومن نہیں ہوتا۔ یہ کیسی آیئڈیولوجی ہے سب لبرل ماڈرن سیکولر سب بھول گیا اس لفظ کو پڑھ کر داؤجی نے یہ کیوں نہ کہا کہ وہ بڑی مذہبی ہوگی؟ یا بنیاد پرست ہوگی؟ یا روایت پرست ہوگی؟ انجانے میں داؤجی نے یہ کیسی آیئڈیولوجی متعارف کروادی۔
کیا بننا چاہتی ہو؟
مومن؟ R u mad?
 مجھے لگتا ہے کہ میں ایک ایسا بچہ ہوں جس کے ماں باپ اُسے بازار لے جاتے ہیں اور وہ اپنے ماں باپ کی حیثیت سے کہیں بڑھ کر مہنگے لباس پر ہاتھ رکھے بیٹھا ہے کہ نہیں مجھے تو یہی لینا ہے بیٹا یہ ہم نہیں لے سکتے یہ بڑے خاص لوگوں کے لئے  ہوتا ہے، نہیں نہیں میں نے یہی لینا ہے مجھے اس کے مقابلے میں اب کچھ اور اچھا نہیں لگے گا۔ آیئڈیولوجیز کی آیئڈیولوجی جو شناخت ختم نہیں کرتی شناخت کو غیر مرئی کر دیتی ہے میرے ماں باپ کہتے ہیں تمہاری چوائس بڑی اُونچی ہے کیا یہ واقعی ہی بہت اونچی ہے؟