Sunday, September 23, 2012

Disqualification


محبت کا آغاز المیے سے ہوتا ہے۔ وہ کیا چیز ہے جس سے محبت کا آغاز ہوتا ہے؟ لوگوں کے ساتھ ایسا  بھی ہوتا ہوگا کہ وصل دیکھا پھر جدائی آگئی مگر میرے نصیب میں عدم تھا اور عدم سے پھوٹتی دکھوں کی نہر ، محبت کی نہر ،محبت کی پہلی سیڑھی ہی دکھ کی سیڑھی تھی نہ کوئی ہنسی نہ خوشی ،محبت آئی بھی تو دکھ کا نام بن کر، میری بازو پہ پہلی چوڑی غم کی چڑھی ،دوسری دکھ کی، تیسری تکلیف کی، چوتھی درد کی پانچویں اذیت کی ،بس یہ دکھ ،درد ،تکلیف ،غم اور اذیت بن کر جو آئی تھی اس کا نام محبت تھا ۔سارا دن عجیب سوچوں میں گزارا جاتا تھا برتن دُھل رہے ہیں دماغ میں وہی کیفیت ، ہاتھ آٹا گوندھ رہے ہیں اور دل صلیب پر چڑھایا جارہا ہے اور اُس سے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں ۔کچھ کھانے کو دل نہیں کرتا تھا سارا دن سوگ میں گزرتا، شادیوں پر جاتی تو میری تصویریں ایسی آتیں کہ گمان ہو کسی ماتم کا حصہ بن رہی ہوں اور پھر کالی اندھیری رات آجاتی اور صرف ایک "رونے دھونے" کا عمل ہوتا۔ دماغ ایسے جکڑ جاتا جیسے پورے دماغ میں ریشہ بھر گیا ہو نہ کوئی آواز نکلتی نہ آہ نہ سسکی مگر آنسوؤں کی ٹرین رواں ہوجاتی قطار در قطار بہتی جاتی، تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی،آنسوؤں کی قطاریں سانپ بن کر پورے منہ پر رینگنے لگتے آنسوؤں کی کوئی لڑی ناک میں جاتی، کوئی ہونٹوں سے ہوتی منہ میں جانے کا راستہ بناتی یہاں تک کہ زبان اگر ہونٹوں کو چھو جاتی تو نمکین ہوجاتی مگر جسم اتنا مریل ہوجاتا کہ آنسو نہ پونچھتا اپنے ہاتھوں سے اپنے آنسو نہیں پونچھے جاتے ہوں گے ، ایسا ہی انسان کی جبلتّ کا قانون ہوگا کیونکہ اُس وقت تمام شعور پر جبّلت ہی طاری رہتی اندر خانے سے کہیں زور کی چیخوں کی آواز بھی آتی مگر اُسکی گونج اندر ہی گھومتی رہی جہاں مُنہ دھرا ہوتا وہاں تکیے کا پورا غلافآنسوؤں سے تر ہوجاتا پھر ناجانے کب اشکوں کی لہر نیند میں اُترتی اور پھر وہی صبح وہی رات وہی انتظار کی چکّی پِستی ۔
یہ سلسلہ اپنی شدت اختیار کرتا جارہا تھا درد اپنی تمام حدود پار کرتا جارہا تھا کسی بھی لمحے دماغ کی کوئی شریان پھٹ سکتی تھی ساری ساری رات تکیے کے غلاف بھگونے کی وجہ سے سر اور آنکھیں شدید درد کا شکار ہوچُکیں تھیں یہاں تک کے درد پورے چہرے تک پھیل چکا تھا ناک کی ہڈی سے درد گالوں کی طرف پھیل جاتا اور زندگی میں آگے کچھ نظر نہیں آرہا تھا سوائے ایک پہاڑ جیسی زندگی جس میں قدم  قدم پر میری روح کو روندے جانا تھا اتنا دکھ میرے لئے انتظار میں کھڑا تھا لوگوں کے لئے جو سب خوشی کی باتیں ہوتیں ہوں گی میرے لئے ڈراؤنے خواب کی آغوش تھی جسم کا درد برداشت ہوجاتا ہوگا مگر جب روح درد اور تکلیف کا شکار ہوجائے تو؟ چھٹکارا کہاں تھا ؟ کیا اس کرب سے چھٹکارے کا کوئی راستہ موجود بھی تھا ؟
کیا میں چھٹکارا پانا چاہتی تھی؟ ہاں! میں دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا اس کے علاوہ بھی اب مجھے کچھ محسوس ہوسکتا ہوگا کوئی آزادی جو اس کرب سے چھٹکارا دِلا سکے پھر ایک دن کچھ لوگ مجھ سے ملنے آئے اُنہوں نے پوچھا کیا وارث شاہ کے مزار پر جاتی رہی ہو؟ میں نے ہاں میں جواب دیا۔ ایسا کرو اب ایک بار پھر ہو آؤ۔ کیا معلوم تمہاری حالت دیکھ کر کچھ ترس آجائے مگر اُس وقت جانا جب وہاں دور دور تک کوئی نہ ہو ایسے عوامل سب کے سامنے حل نہیں ہوسکتے۔ میں نے پوچھا کس وقت؟ جواب مِلا "رات کے تین بجے"
:رات کے تین بجے؟ اور وہ بھی وارث شاہ کے مزار پر وہاں مجھے کون لے کر جائے گا؟
"لے کر کوئی نہیں جائے گا پہنچا دی جاؤ گی ، جاؤ اب انتظار کرو"
یہ گہری اندھیری رات تھی اماوّس کی راتوں جیسی باہر صرف درخت اور اندھیرا تھا اور میں مزار کے اندر۔ یہ میرا روز محبت کے کرب میں رونے کا وقت ہوا کرتا تھا میرے بےتہاشا آنسو بہہ رہے تھے ،باہر گھپ اندھیرا اور بنا چاند کے رات ہی تھی مگر مزار میں سب صاف نظر آرہا تھا ۔
 کیا یہاں سکون اور آزادی مل سکتی تھی؟
 اب غیر ارادی افعال کا سلسلہ شروع ہوگیا ،میں سر سے پاؤں تک سفید لباس میں لپٹی ہوئی تھی وارث شاہ کی قبر بھی وہ دن والے مزار والی قبر نہیں تھی جو سفید سنگِ مرمر سے ڈھکی ہوتی ہے یہ تو بس قبر تھی مگر سفید چادر سے ڈھکی تھی میں زار و قطار روئی جارہی تھی پھر نہ جانے مجھے کیا ہوا میں قبر کی طرف بڑھی اور اپنی دونوں لمبی بازویئں پھیلا کر قبر کو چمٹ گئی آج تک میں بغیر آواز کے ہی روتی آئی تھی روتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے میرے جبڑوں کو لقویٰ مار گیا ہے مگر آج میرے رونے میں اتنی شدت آگئی کہ میں زور زور سے چیخیں مارنے لگی اور آنسو تھے روکتے نہ تھے میں روتی جارہی تھی چیخیں مار رہی تھیں انتہائی درد ناک اور کرب ناک چیخیں ،جنہیں کوئی بھی سُن کر برداشت نہ کر پائے ۔ناجانے یہ چیخیں کہاں سے نکل رہیں تھیں؟ پھر ایک دم کچھ عجیب سا ہوا مجھے قبر پر جھکے ہوئے یہ خیال دل میں آیا کہ اب یہ انتہا ہوگئی ہے اب اور اس سے آگے یہ سلسلہ کہاں ٹھہرے گا؟ میں نے دعا کی "یا اللہ یہ میری روح واپس لے لیجیے یہ تو بڑی تکلیف دہ ہے اِسے واپس بُلا لیں اس سے آزادی دِلا دیں" اور مزید زور زور سے کرب ناک چیخیں مارنے لگی پھر ایک دم جیسے میرے پاؤں سے زمین نکل گئی یہ کیا تھا ؟ وہ ساکت قبر جس سے لپٹ کر میں رو رہی تھی وہ قبر زور زور سے ہلنا شروع ہوگئی میں نے سر اُٹھا کر دیواروں کو دیکھا سب ساکت تھیں مگر میرے ہاتھوں اور بازوں کے حصار میں پڑی قبر زور زور سے ہل رہی تھی میں ڈر کے مار پیچھے جالیوں والی دیوار کی طرف بھاگی اور اُسی وقت خوف سے بےہوش ہوگئی ۔
قبر والا جاگ چُکا تھا اور قبر کے دو دربان بھی حاضر تھے ،
پہلا درباری: وارث جی ہم معافی چاہتے ہیں ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ لڑکی کتنی بڑی مصیبت ہے جس نے آپکو قبروں میں سے اُٹھا دینا ہے۔
دوسرا درباری: وارث جی خدا کتنا رحیم ہے کتنا سخی ہے جب دینے پر آتا ہے تو اس جیسیوں ،لاغروں اور حقیروں کو کیسی کیسی روحیں نواز دیتا ہے اور اسکی ناشکری کا عالم دیکھیے۔ کہ اپنی روح واپس کروارہی ہے۔
وارث شاہ: خدا کے بندوں کی کسی بھی وقت کوئی بھی دعا پوری ہوسکتی ہے ہمارا کام تو صرف دستخط کرنا ہے حُکم تو اُوپر سے صادر ہوچکا ہے ہم نے وہی آگے پہنچا دینا ہے۔
پہلا درباری: کیا آپ سچ میں دستخط کردیں گے ؟
وارث شاہ:  خدا کا جو حکم ہوا ہے اُسی پر عمل کیا جائے گا یہ تو بس اظہار کا در سمجھ کر یہاں آئی تھی کچھ مانگنے نہیں آئی تھی نہ ہی ہم دینے والے ہیں توبہ! توبہ! ہم بھلا کسی کو کیا دے سکتے ہیں ، اسکے اور خدا کے درمیان کا معاملہ ہے اس نے اظہار کردیا اوپر سے حکم آگیا ہم نے تو صرف ڈاکیے کی طرح اسکا پیغام اسکے ہاتھوں میں پہنچا دینا ہے ، کیا کبھی کسی ڈاکیے نے خود چٹھی کے اندر موجود پیغام  لکھا ہے؟ کیا کبھی کسی ڈاکیے کا اپنا حکم چلا ہے کہ خط میں کیا ہو اور کیا نہ ہو؟ مگر کیا کبھی ڈاکیے کے بغیر چِٹھی وصول کرنے والے تک پہنچی ہے؟؟ ہمارا کام تو بس اِسکو حکم پہنچا دینا ہے ، حُکم جو "حاکم" کی طرف سے آچکا ہے۔ ہم تو ذریعہ ہیں محض۔
پہلا درباری: کیا روح واپس بُلا لی جائے گی؟
وارث شاہ: نہیں اِسے چھوڑ دے گی بس، روح آزاد کردی جائیں گی ایسے جیسے کوئی گیس والا غبارہ اُڑتا ہے بے یارومددگار ، اپنے مالک کی گرفت سے دور ویسے، مگر آزاد روحوں کو خطرہ ہے کہ کہیں شیطان کے چنگل میں نہ پھنس جایئں پھر تو اُن کا نکلنا بہت مشکل ہوسکتا ہے۔ مگر اس نے خود دعا کی ہے خدا دعاؤں کو سُننے والا ہے اِس کی روح آزاد ہوئی۔
دوسرا درباری: اس لڑکی کی حرکتیں بھی تو دیکھیں کوئی ایسا "پِٹ پٹیا" کرتاہے بھلا؟ اس نے تو اپنا رونا کبھی ختم کرنا ہی نہ تھا اسے ایسے ہی چھٹکارا ملنا چاہیے تھا ، بیوقوف ساچھوٹا انسان ہے یہ۔
وارث شاہ: بس خدا کی رنگ رنگ کی مخلوق ہے ، ہم دستخط کئے دیتے ہیں یہ اسکا letter   disqualification   ہے اِسے محبت جیسی شے سےDisqualify  کیا جاتا ہے اسکے لئے یہی حکم نامہ مِلا ہے ہمیں ۔
میں ہلکا ہلکا ہوش میں آرہی تھی میرے ہاتھ میں میرا disqualification letter موجود تھا ،مجھے کانوں میں ہلکی ہلکی آواز بھی آرہی تھی "دیکھو بی بی ویسے تو آپ پڑھنا لکھنا جانتی ہیں مگر یہ خط آپ خود پڑھنے کے قابل نہیں ہے اسلئے ہم آپکو آپکی  زبان میں بتا رہے ہیں، ہم اس دربار کے درباری ہیں آپ کے لیئے محبت سے disqualification   کا حکم ہے ۔ وارث شاہ جی نے دستخط  بھی کردیئے ہیں اب آپ بالکل آزاد ہیں اب آپ کی جگہ براعظم یورپ ، ملک انگلستان ، شہر لندن کے Queen Mary University میں پڑھنے والی ایک لڑکی کو qualify  کردیا گیا ہے اب وہ محبت کرے گی آپ کی جگہ آپ نہیں ، آپ بالکل آزاد ہوئی آپ پر اب آج سے کوئی بوجھ نہیں ۔
دن چڑھے جب میری آنکھ کھلی تو میرے دماغ میں رات کی ساری کہانی اور اُس درباری کے تمام الفاظ گونج رہے تھے مجھے اپنا آپ اتنا ہلکا محسوس ہوا کہ غالباً میں ہوا میں معلق تھی تمام درد غایب ہوچکے تھے مجھے سب کچھ نیا نیا محسوس ہورہا تھا میرے اندر کوئی چیز دھمال ڈال رہی تھی مجھے لگا جیسے مجھے کسی اعزاز سے نواز دیا گیا ہے میں نے قبولیت میں سرشار ہوکر فیصلہ قبول کرلیا ،یہی حُکم ہے اب میری اپنی مرضی تھوڑی ہے یہ! کرنے دو وہ لندن والی انگریز میم کو محبت وہ کرسکتی ہوگی یہاں کیا ہونی تھی ۔ مگر اب میں اس "محبت" نام کو اپنے ہونٹوں پر نہیں سجا سکتی تھی مجھے جو خود کرنے کا حُکم نہیں ہے اُسے کسی دوسرے کو کیسے تبلیغ دے سکتی تھی ۔دیکھ دیکھ کر، دھیان سے زندگی گزارنی پڑتی ہے جس میں اِسکا نام نہ آتا ہو یہ نام ہی تو تھا پہلے بھی شائد ایک نام کے زندگی کے نکل جانے سے آزادی مل گئی تھی اب برسوں بیت گئے ہیں میں کبھی کِسی امتحان میں فیل نہیں ہوئی سوائے محبت کے۔ اُس رات میں نے انجانے میں اپنے ایک ایک دکھ کی چوڑی بھی روتے ہوئے قبر پر مار مار کر توڑ دی تھی اب بس سکون تھا اور ہے ، آپ مجھ سے پوچھ لیجیے محبت کیا ہوتی ہے؟میں اسکی سو برایئاں یا اچھایئاں بیان کردوں گی مگر یہ کبھی مت پوچھئے گا میرے لئے محبت کیا ہے کیونکہ  میری خشک آنکھوں میں جنہوں  نے اب سالوں سے کبھی اب ایک آنسو کی بوند نہیں دیکھی میری دل نے جو پتھر کی سختی کو بھی مات دے چُکا ہے اسکا کوئی جواب نہیں دینا ،بھلا کسی کو یہ کہتے ہوئے اچھا لگتا ہے؟ میں کیا بتاؤں میرے لئے محبت وہ ہے جس میں مجھے disqualify  ہی کردیا گیا ۔ اور میں یہ بھی نہیں پوچھ سکتی دُکھی سا منہ بنا کہ "مجھے کیوں disqualify کیا ؟


(بلاگ پر میرا پہلا افسانہ)
فریحہ فاروق

6 comments:

  1. Perfect....thorra mawarai lagta ha....shuru ma gham ko buhat openly byan ker dia ha,ma personally is k khilaf hoon

    ReplyDelete
  2. جسٹ پرفيكٹ،ميرے تو آنسو نكل پڑے پڑھ كر…

    ReplyDelete
  3. ما شاء اللہ بہت خوب

    ReplyDelete
  4. فریحہ ویسے آیَڈیا اچھا ہے، ایفورٹ بھی ہے، لیکن خیال کی مزید پختگی، تھوڑی چاشنی اور تھوڑا ڈرامہ اور ہونا چاہیَے۔ میری راےَ میں یہ اچھی بلاگ پوسٹ تو ہے، لیکن افسانہ نہیں۔  شاید اسلیَے کہ میرے خیال میں تم اس سے بہت بہتر لکھ سکتی ہو، جاری رکھو۔ 

    ReplyDelete
  5. معذرت کے ساتھ۔ یہ ایک اچھی پوسٹ بھی ہے اور افسانہ بھی۔ ابھی اردو میں اتنے قاعدے نہیں بنے کس تحریر کو پسٹ کہا جائے اور کس کو افسانہ۔ ما شاء اللہ بہت خوب۔ اللھم زد فزد

    ReplyDelete