Thursday, January 19, 2017

میں خود کو بھول چکا تھا لیکن

یہ بات میرے لئے بھی ناقابل یقین ہے کہ مجھے تین سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا ہے کوئی بلاگ پوسٹ لکھے ہوئے  آخر میں کہاں کھو گئی تھی ؟  ایسا کیا حادثہ پیش آگیا تھا؟ مجھ پر کیا ٹریجیڈی بیت گئی جو دنیا سے کنارہ کر لیا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اتنے سال بلاگ نہ لکھنے کا میرے پاس کوئی جواز موجود نہیں ماسوائے اسکے کہ میں خود کو ہی بھول چکی تھی مجھے اپنا آپ کبھی یاد ہی نہیں آیا، میں نے گذشتہ کچھ سالوں میں ایک گھر بسایا خدا نے اولاد کی دولت دی، زندگی میں ٹھہراؤ آگیا مگر کہیں نہ کہیں مجھے احساس ہوتا رہا کہ میری ذات کی کھڑکیاں بند ہوتی گئی وہ کھڑکیاں جو ہمیشہ کھلی رہنی چاہیے تاکہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اندر آتے رہے اور آپکے اندر موجود گھٹن باہر کی ہوا میں گم ہوتی رہی۔ 
میں نے تین سال پہلے سوچا کیوں نہ کوئی شاہکار لکھا جائے کیوں نہ کوئی ایسی بات کی جائے جو جگ سے نرالی ہو، اور تین سال گزر جانے کے بعد بھی نہ تو کوئی شاہکار لکھا جاسکا نہ ہی کوئی جگ سے نرالی بات ذہن میں آسکی۔ میں نے اشفاق احمد کی تحریر پڑھی "چاند کا سفر" اور سوچا اب کوئی ایسی تحریر ہی لکھی جائے گی ۔میری ناقص عقل میں یہ بات نہ آسکی کہ میں کون ہوں میں کیا لکھتی ہوں میرا مقام کیا ہے۔ خود کو کیسی آزمایش میں ڈال رہی ہوں ۔ مصنف بننا مشکل ہے ،دانشور بننا مشکل کام ہے ، میں زبان دان نہیں ہوں ، دانشور بھی نہیں ہوں میں کون ہوں یہ مجھے بھی معلوم نہیں ہے ، میں کومن مین ہوں آم آدمی، مینگو پیپل، ہم ان لوگوں میں سے ہے جو تصور کرتے ہیں کہ زندگی کے ڈرامے یا فلم میں ہم مین رول ادا کریں گے اس دنیا میں ہمارا کردار بہت اہم ہوگا ہم خود کو بہت اہم سمجھتے ہیں مگر درحقیقت ہمارا کردار ایک پرستار کا ہوتا ہے جو عظیم اور عمدہ لوگوں کی محبت اور سحر میں گرفتار تو ہوتے ہیں مگر کبھی ان جیسا بن نہیں پاتے۔یہ سمجھنے میں مجھے تین سال لگ گئے کہ میں عام آدمی ہوں میں اشفاق احمد کی طرح نہیں لکھ سکتی میں ان عظیم الشان مصنفوں میں سے نہیں ہوں جنہیں میں پڑھنا پسند کرتی ہوں میری تخلیقی صلاحیتیں محدود ہیں۔ میں نے لکھنا چھوڑ دیا مگر جو بھی ہو میں پڑھنا نہیں چھوڑ سکتی ،اب کچھ یوں صورتحال ہے کہ کئی کئی دن میں کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتی مگر ان سے پیچھا بھی نہیں چھڑانا چاہتی میرے بیڈ کی سایئڈ ٹیبل پر ہمیشہ ایک کتاب موجود ہوتی ہے میں پڑھے ہوئے کو دوبارہ پڑھ لیتی ہوں۔ ہم میں سے اکثریت ایسی ہے جو فیس بک پر روز نہ جانے کتنی پوسٹس پڑھتے ہیں یعنی ریڈنگ ایک ایسی عادت ہے جو ہم چھوڑ نہیں سکتے میں بھی کبھی چھوڑ نہیں سکتی۔ مگر میں نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا؟ مجھے کسی نے یاد کیوں نہیں دلایا کہ میں لکھا کرتی تھی؟
کچھ بے ربط تحریریں ،کچھ منتشر خیالات مگر میں لکھا کرتی تھی، میں کچھ عظیم نہیں لکھ سکی کچھ سبق آموز نہیں مگر میں لکھا کرتی تھی۔ میں یا میرے جیسے بہت سے دوسرے لوگ جو خاموش ہوگئے مگر سوشل میڈیا سے بھاگ نہ سکے ،سوشل میڈیا سے بھاگا نہیں جاسکتا یہ ہماری زندگیوں کا اتنا ہی اہم حصہ بن چکا ہے جتنا فلم یا ٹی وی ۔میرے والدین سوشل میڈیا کا حصہ بن چکے ہیں کچھ سال بعد میرے بچے بھی یہ ویب سایٹس استعمال کررہے ہوں گے۔میں اکثر کہا کرتی ہوں کہ پہلے لوگ ڈایری لکھا کرتے تھے اور اب بلاگ لکھتے ہیں ہماری ڈایری البتہ ہم کسی کو پڑھانا نہیں چاہتے تھے مگر اپنا بلاگ ہم سب کو پڑھانا چاہتے ہیں ،ہم بدل چکے ہیں ہمارے معاشرے کی سوچ بدل چکی ہے اب رشتے کے لئے لڑکا لڑکی کی تصویریں نہیں بھیجی جاتی بلکہ انکے فیس بک کے پروفائل دیکھے جاتے ہیں یہ کہنا غلط نہ ہوگا ہم ایک نئے دور ایک نئے عہد میں داخل ہوچکے ہیں،ہم ان تبدیلیوں کو قبول کرچکے ہیں۔

  چلو کچھ ایسا کرتے ہیں کہ بلاگنگ کی دنیا میں دوبارہ قدم رکھتے ہیں خود کو مصروف کرتے ہیں اب میں پہلے جیسے ڈپریشن زدہ آرٹیکلز نہیں لکھ سکتی یا شاید لکھ بھی سکتی ہوں مگر یقین جانیے زندگی ہر رنگ سے زیادہ رنگین ہے،ہر موڑ پر خوبصورت ہے ان سب لوگوں کا شکریہ جو اپنی زندگیاں شیئر کرتے ہیں اور ہم خود بھی ان میں سے ایک ہے۔ ہم سوشل میڈیا پر موجود ہیں اپنی خوشیاں اور غم بانٹنے کے لئے، ایک دوسرے سے جڑے رہنے کے لئے۔ سوشل میڈیا ایک خوبصورت جگہ ہے یہاں سے فرار ممکن تو ہے مگر لازم نہیں آخر لوگوں سے دور بھاگنے کا کیا مقصد ہے ؟مگر سوشل میڈیا کا استعمال سمجھداری اور عقل و شعور سے کرنا چاہیے۔کسی پر بھی اندھا بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔اپنی سوچ کو مثبت رکھیے قدم بھی مثبت راہوں پر ہی پڑیں گے ۔میں اپنے WEIRD خیالات کے ساتھ دوبارہ پیش خدمت ہوں ۔ مگر اب میں پہلے سےزیادہ سرشار ہوں دو بچوں کی محبت میں جنہوں نے زندگی کو بالکل بدل کے رکھ دیا ہے ، جلد ہی دوبارہ ملیں گے اس ارادے کے ساتھ پوسٹ ختم کرتی ہوں کہ اب میں لکھتی رہوں گی ۔

فریحہ فاروق
19 جنوری 2017