Wednesday, September 18, 2013

وہ تیس دن ۔۔ چلڈرن ہسپتال میں

اس پوسٹ کا اعلان کرنے کے بعد میں نے کاغذ قلم اُٹھایا اور ایک روایتی قسم کا مضمون لکھ دیا جو اتنا ہی بورنگ اور تھکا ہوا تھا جتنا انڈین ٹی وی سوپ جب میں نے اُس پوسٹ کو پڑھا تو ایسے ہی لگا جیسے کوئی کبھی نہ ختم ہونے والا سوپ لکھا ہے جس کو دیکھ کر شدید اعصابی کھچاؤ پیدا ہوتا ہے اور اچھا بھلا انسان بیمار محسوس کرتا ہے یہ پوسٹ اتنی ہی بے وجہ اور بد زائقہ ہے جتنی ہمارے ٹی وی چینلز پر ہونے والے سیاسی ٹالک شوز تو آخر آپ سب یہ پوسٹ کیوں پڑھیں گے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے ویسے ہی جیسے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ آپ سب انڈین  یا پاکستانی چینلز پر سوپ کیوں دیکھتے ہیں یا ہم سب کے اباجان یہ فضول کے ٹالک شوز کیوں دیکھتے ہیں جب عوام اتنا سب کچھ برداشت کرسکتی ہے تو میری ایک بورنگ بلکہ انتہائی بورنگ بلاگ پوسٹ کیوں نہیں؟

میں نے سوچا اس پوسٹ کا آغاز انتہائی ڈرامائی ہوگا جس میں ،میں اپنے سب پڑھنے والوں پر یہ انکشاف کروں گی کہ میں تو بچی ہوں نہیں اور انتہائی طویل عرصہ گزر چکا مجھے عمر کی اس حد کو پار کئے ہوئے جس حد تک آپ چلڈرن ہسپتال میں علاج کرواسکتے ہیں یعنی وہ سب لوگ جو یہ سوچ کر بلاگ پڑھ رہے ہوں گے کہ میں نے تیس دن بطور مریض چلڈرن ہسپتال میں گزارے  ان کو انتہائی خوشگوار سرپرائز ملے گا کہ میں ہسپتال میں بیمار ہوکر نہیں گئی تھی بلکہ ٹریئننگ کی غرض سے گئی تھی اور یہ سرپرائز تو پڑھنے والوں کو چونکا دے گا کہ میں میڈیکل کے پروفیشن سے وابستہ ہوں اور اب وہ اور دلجمعی سے میرا بلاگ پڑھاکریں گے مگر افسوس مجھے جلدی عقل آگئی آخر آپ سب لوگوں کو یہ جاننے میں کیا دلچسپی ہوگی کہ میری عمر کتنی ہے میں چلڈرن کے طور پر  چلڈرن ہسپتال میں علاج کرواسکتی ہوں یا نہیں۔ میں کس پروفیشن نے وابستہ ہوں ؟کسی کو کیا فرق پڑتا ہے ان سب باتوں سے یعنی پوسٹ کا آغاز ہی ڈرامائی نہیں ہے۔
چلڈرن ہسپتال لاہور
میں آپ سب کو مزید بور کرنے کیلئے ہسپتال کی بدبو کا ذکر کرنا چاہتی تھی کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہسپتال میں سب سے زیادہ ناگوار اور کثیر تھی میں آپ سب کو اپنی پوسٹ میں بتاتی کہ ہسپتال کی  وارڈز میں جب فینائل کا کپڑا مارا جاتا ہے تو فینائل کی بدبو کیسی ہوتی ہے کتنی  ناک کو جلا دینے والی، حلق کو بند کردینے والی بدبو  اور میں آپ سب کو چلڈرن ہسپتال لاہور کی کیفے میں پھیلی ہوئی سگریٹ کی بھیانک بدبو کی کہانیاں سُناتی کہ کیسے اُس جگہ کھانا تو دور کی بات سگریٹ کے دھویئں کی بدبو سے سانس لینا بھی محال ہے مگر آپ سب لوگ ویسے ہی بور ہوتے جیسے کوئی انگریزی اخبار پڑھتے ہوئے ہوتا ہے وارڈز میں مریضوں کے بیڈز کے پاس سے آنے والی بدبو سے آپ سب کا کیا سروکار ؟ یہ سب انتہائی ناگوار باتیں آخر میں اپنے بلاگ میں کیوں لکھوں ؟

میں آپ سب کو چلڈرن ہسپتال لاہور کا جغرافیہ بتاتی یہ کہاں واقع ہے اس کی تین عمارتیں ہے ، ایڈمن بلاک ایمرجنسی بلاک اور OPD  بلاک ایک بلاک سے دوسرے بلاک میں کیسے جاتے ہیں ؟ لفٹ کی روداد سُناتی لفٹ میں آنے والے چکروں کا زکر کرتی کیسے وہ سارا دن میرا سر گھمائے رکھتے ، ہسپتال کی ایمرجنسی میں داخلہ عام عوام کے لئے کتنا مشکل ہے یہ سب بتاتی ۔مگر یہ سب بہت بورنگ باتیں ہیں میری باتیں ہسپتال سے متعلق صرف بورنگ نہیں بلکہ دکھی بھی ہوتیں جب میں آپ کو بتاتی کے چھوٹے چھوٹے بے شمار بچے جب آپ کو اپنی بیمار آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو کیسا محسوس ہوتا ہے اس بات سے آگاہی کہ یہ جو سات سال کا بچہ اپنے بیڈ پر بیٹھا اپنی ماں کے موبائل پر گیم کھیل رہا ہے اس کو بلڈ کینسر ہے اور اس کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں آپ کو کتنا دکھ دے سکتی ہے یہ سب بھی میں آپ کو بتانا چاہتی تھی، چلڈرن ہسپتال کی ایمرجنسی میں کیسے کیسے مریض آتے ہیں سب معصوم کم عمر بچے ہوتے ہیں اُن کی مایئں جب اپنے بچے کی زندگی مانگنے کے لئے ڈاکٹر کے آگے گڑگڑاتی ہیں تو کیسے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، غربت بیماری کی وجہ ہوسکتی ہے غریب لوگ کیوں سب سے زیادہ بیمار ہوتے ہیں۔ کیوں اور کتنی عورتیں اپنے بچوں کی پیدائش کے بعد ویکسینیشن نہیں کرواتی اور اُنہیں بہت سی ملحق بیماریوں کے منہ میں خود ہی ڈال دیتی ہیں ۔ یہ سب دکھی باتیں میں لکھ کر پڑھنے والوں کو مزید دکھی کیسے کروں گی یہ سب سوچتے ہوئے مجھے اپنا بلاگ مزید بور لگنے لگا ۔
ایمرجنسی
ٹی بی اور مرگی یہ دو ایسی بیماریاں ہیں جن کی ادویات تمام مریض بچوں کو ہسپتال میں مفت فراہم کی جاتی ہیں یعنی ان دونوں بیماریوں کے  مریض ہسپتال میں داخل نہ بھی ہوں تو بھی اُنہیں مفت ادویات ملتی ہیں۔ مفت دوائی ملنے کے لحاظ سے یہ دونوں بیماریوں کے مریض خوشقسمت ٹھہرتے ہیں مگر آخر یہ بیماریاں ان بچوں کو ہوتی ہی کیوں ہیں؟ آخر دنیا کی تمام بیماریاں ہی بیچارے معصوم بچوں کو کیوں ہوتی ہیں؟ کسی انسان کو بھی کیوں ہوتی ہیں ؟ کیسے پوری دنیا کو تمام بیماریوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے ؟ جب یہ سب ممکن ہی نہیں ہے تو ان سب ناممکنات کو لکھنے کا ہی کیا فائدہ آخر؟
دوست
دوست
ہسپتال کی وارڈز میں اور ایمرجنسی میں  داخل تمام مریضوں کو مفت ادویات ملتی ہیں مگر اس سہولت کو حاصل کرنے والے مریض جن وارڈز میں داخل ہوتے ہیں اُن کی حالت ناگفتہ بہ صرف اس وجہ سے ہے کہ وارڈز کے کمروں میں بدبو بہت زیادہ ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سارے مریض بچے ہیں جو بیڈ گیلا کرتے ہیں اور مایئں بھی تند و توانا نہیں ہوتی کہ بہتر طور پر سب کچھ مینج کرسکے اکثر بچے خود فرش پر یا ادھر ادھر کھیل رہے ہوتے ہیں اور اُن کی مایئں ان کے بیڈ پر لیٹی کمر سیدھی کررہی ہوتی ہیں ۔ مریضوں سے اور اُنکے لواحقین سے باتیں کرنا اُنہیں تسلی دینا کے وہ بہت جلد ٹھیک ہوجایئں گے اور کبھی کبھی کسی مریض کی ماں کو یہ بتا دینا کہ اُس کے بچے کو کیا بیماری ہے کیونکہ بچے کی دیکھ بھال کررہی اُن کی ماؤں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اُن کے بچوں کو کیا بیماری ہے ۔ایک ماں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنی بیٹی کا bone marrow test نہیں کروانا چاہتی کیونکہ اُسے بتایا گیا ہے کہ اس سے اُسکی بچی معزور ہوجائے گی اور ہم غریب لوگ ہیں ہماری بیٹی معذور ہو جائے اس سے بہتر ہے کہ خدا اُسکی زندگی چھین لے۔ یہ بات کہہ کر اس عورت نے میرے قدموں تلے زمین ضرور چھین لی ۔ہم کون لوگ ہیں ؟ غربت نے ہمیں کس حد تک مایوس اور بے حس کردیا ہے ؟ یہ سب میں کیوں لکھ رہی ہوں ؟

یہ بلاگ پوسٹ کتنی ہی بورنگ کیوں نہ ہو مگر ایک خوف آپ کو ضرور بتاتی چلو اور وہ ہے ٹی بی کا خوف ہسپتال کے OPD میں سب سے زیادہ مریض ٹی بی کے آتے ہیں ٹی بی ایک communicable disease ہے یعنی ایک انسان سے دوسرے میں پھیلتی ہے اس لئے ہسپتال میں گزارے گئے سارے دورانئیے میں اور گھر آکر بھی اس ایک بیماری نے میرے ہوش اُڑائے رکھے کہیں ہمیں تو اس کے جراثیم ۔۔۔۔ نہیں نہیں توبہ توبہ کیا کہہ رہی ہوں۔ ٹی بی کی بےشمار قسمیں ہے یہ پھیپھڑوں میں ہوسکتی ہے پیٹ میں اور یہاں تک کہ یہ جراثیم آپ کے دماغ میں بھی گھُس سکتا ہے اور دماغ کی ٹی بی بھی ہوسکتی ہے ٹی بی کے مریض  وہ تمام معصوم بچے جن سے میری ملاقات ہوئی اُن کے گھر میں کوئی نہ کوئی ایسا انسان ضرور ہوتا ہے جس کو ٹی بی ہو۔ کسی کو ماں، کسی کو باپ یا چچا یا کسی قریبی رشتہ دار سے یہ بیماری لگ جاتی ہے ۔یہ بلاگ پوسٹ ایسے ہی لمبا ہوتا چلا جائے گا جیسے پانی ڈالنے سے شوربا ۔

اس پوسٹ کے آخر میں میں ان تمام ڈاکٹروں اور نرسوں کو خراج تحسین پیش کرتی جن کو مریضوں کا علاج کرتے میں نے چلڈرن ہسپتال میں دیکھا میں آپ کو بتاتی کہ جس بدبو نے میری ناک میں دم کر رکھا، یہ سب ڈاکٹرز ان سب باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، اُنہیں وارڈز میں دن رات مریضوں کا بہترین علاج کررہے ہیں۔ پورے پنجاب کے بچے اسی ہسپتال میں آتے ہیں کیونکہ یہاں کے ڈاکٹرز اور پروفیسرز بہترین ہیں نرسیں ایک ایک بچے کا خیال رکھتی ہیں ۔مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کے باوجود کسی بھی مریض سے غفلت نہیں برتی جاتی ۔ ینگ ڈاکٹرز ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر مریضوں کا علاج کررہے ہیں یعنی ایکسٹرا کیئر مہیا کررہے ہیں ۔ میں نے ڈاکٹرز سے باتیں کیں اُن کو کام کرتے ہوئے دیکھا اُن کے کام کو سمجھا نرسز پر ڈنڈا رکھا بہت سے کمپاؤنڈرز سے ملا ڈزپنسرز سے باتیں کیں۔ یعنی کام کم باتیں سب سے زیادہ کیں اتنا سب کچھ کیا اور بور نہیں ہوئی مگر یہ سب پڑھ کر آپ ضرور بور ہوئے ہوں گے آپ سوچ رہے ہوں گے میں نے وہاں کیا سیکھا تو پہلے آپ یہ سوچیں کہ آپ نے یہ بلاگ پڑھ کر کیا سیکھا ۔کہیں آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ میرا روز ہسپتال جانے کا مقصد ہی یہ پوسٹ لکھنا تھا؟ اور میں ساری پوسٹ لکھتے ہوئے یہی سوچتی رہی کہ کہیں آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ میں ڈاکٹر ہوں اور میں آخر میں کہوں گی "خدانخواستہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں " ڈاکٹر انتہائی نیک اور محنتی  لوگ ہیں اور کیا میں نرس ہوں؟ "اللہ معاف کرے نرس بھی نہیں ہوں" نرس ایک انتہائی بلند حوصلہ والی مظبوط عورت ہوتی ہے میرا نہیں خیال میں کون ہوں یہ جاننے میں آپ کو دلچسپی ہوسکتی ہے اور اگر آپ کو غصہ آرہا ہے تو مجھے بھی یہ دیکھ کر بہت غصہ آئے گا جب کئی دن گزرنے کے بعد بھی اس پوسٹ پر کوئی comment  نہیں آئے گا اور اس کے بور اور فضول ہونے کا مجھے یقین ہوجائے گا بس کریں پڑھنا پوسٹ ختم ہوگئی ہے۔


ہسپتال کے باہر


Sunday, June 23, 2013

معاشرتی بیوایئں

عام طور پر ایسا سمجھا جاتا ہے کہ بیوہ وہ عورت ہوتی ہے جس کا خاوند مر چُکا ہو مگر کچھ بیوہ عورتیں ایسی بھی ہوتیں ہیں جنہوں نے نہ کبھی شادی کی ،نہ سُہاگ کا جوڑا پہنا اور نہ کوئی اور سکھ دیکھا مگر وہ بیوہ ہوگیئں ۔ ہندؤں کے قدیم رواج کے مطابق بیوہ عورت کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے اُس کے لئے صرف تین حُکم ہیں ایک تو یہ کہ اگر پتی کا بھائی زندہ ہے تو اُس سے بیاہ کرلے دوسرا پتی کے ساتھ ہی ست٘ی ہوجائے اور تیسرا یہ کہ اپنی ہر خواہش تیاگ دے اور سفید لباس پہن سب سے الگ جیون گُزارے ،وہ سارا دن پوجا پاٹ کرے اور کسی بھی قسم کی لذت سے لطف اندوز نہ ہوں۔ ان عورتوں کو نہ اچھا کھانا کھانے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی اچھی زندگی گُزارنے کی۔ برصغیر کا یہ ہندو معاشرہ ارتقاء کرتا رہا ،معاشرے میں تبدیلیاں آتی گیئں جن میں سب سے بڑی تبدیلی اسلام کی آمد تھی لوگ مسلمان تو ہوگئے مگر معاشرہ کس حد تک مسلمان ہوا؟
ہم سب ایک مسلم مُلک میں رہتے ہیں اور آج جہاں دنیا میں اخلاقیات کا جنازہ اُٹھ چکا ہے اور اس میں سب سے پہلی پیش قدمی عورتوں کی آزادی کی تحریک سے ہی ہوئی ہوگی ،عورتوں نے اپنی آزادی کی تحریک چلائی اور پھر معاشرہ تمام روایات و اقدار سے آزادی حاصل کرتا چلا گیا ۔ہم کہیں اور نکل گئے ہیں اپنے مدعے پر آتے ہیں ۔پاکستان جو منٹو کا ملک ہے اشفاق احمد کا ملک ہے بہت سے دانشوروں کا ملک ہے یہاں اسلام کا بول بالا تو ہے مگر کیا یہ سب صرف ظاہری طور پر ہے؟ ایک اکیلا پاکستانی مرد ،ایک اکیلی پاکستانی عورت ہمیشہ معصوم ہی ہوتے ہیں مگر جب ہماری بھیڑ بنتی ہے تو اجتماعی رویے سامنے آتے ہیں ۔ آج جو فیشن کا دور ہے ہر انسان خوبصورت اور دلکش نظر آنا چاہتا ہے مگر ہماری عورتوں میں آج بھی اتنی جراؑت دکھائی ہے کہ اپنے آپ کو ہر ایک کی آنکھ کی زینت نہیں بنایا خود کو نمایش کے لئے پیش نہیں کیا ۔ پاکستان کا شہری معاشرہ خوشحال بھی ہے اور بہت بڑی بڑی برایئوں سے پاک بھی ہے ۔مناسب لباس پہننے والا اور پاک خوراک کھانے والا یہ معاشرہ بظاہر پھل پھول بھی رہا ہے مگر اندر سے ہم کیا ہیں؟ کیا ہمارا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہوچکا ہے؟ یا اندر سے ہم آج بھی برہمن ہندو ہیں؟
جس معاشرے میں ہم آج رہتے ہیں اس میں بہت سی پابندیاں ہیں میں ہمیشہ سے یہ کہتی آئی ہوں کہ اسلام ہمیں جس بات کی اجازت دیتا ہے ہمارا مسلمان معاشرہ اس بات کی  بھی اجازت نہیں دیتا ۔اسلام میں پسند کی شادی کی ممانعت نہیں ہے مگر ہمارے مسلمان معاشرے میں اس کی سخت ممانعت ہے ۔ یہ مئسلہ کیا ہمارے اندر بسی ہندوازم کی نشاندہی نہیں کرتا؟ ہندو معاشرے میں عورتوں کو دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے اور ہمارے معاشرے میں پسند کی  شادی کی اجازت نہیں ہے ۔ ان دونوں پابندیوں کا مقصد ایک ہی ہے انسان کی شخصی آزادی کا گلہ گھونٹنا آج بھی کوئی پسند کی شادی کرنا چاہتا ہے تو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے ۔آئے دن ہم خبروں میں دیکھتے ہیں کہ پسند کی شادی کرنے پر کورٹ کیسز چل رہے ہوتے ہیں ۔پسند کی شادی کرنا بہت رسوائی کی بات سمجھی جاتی ہے اور لڑکی یا بعض اوقات لڑکی لڑکا دونوں کے گھر والے اُن سے ہر تعلق ناطہ صرف اس بات پر توڑ دیتے ہیں کہ اُنہوں نے اُن کی نافرمانی کی۔بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو پسند کی شادی کی اجازت نہ ملنے پر ساری زندگی شادی نہیں کرتے اور بیوگی کی زندگی گزار رہے ہیں اور کچھ لوگوں کو زبردستی کی شادی کی سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے اس بات سے متعلق ایک لطیفہ بھی میرے دماغ میں آرہا ہے ویسے تو قابل اعتراض  ہے مگر آج کل آزدی قلم کے زیرِ اثر کچھ بھی قابلِ اعتراض نہیں رہا تو لطیفہ یہ ہے کہ کیا پسند کی شادی کے بعد اور ارینج میریج کے بعد جو ہوتا ہے کیا اُس میں فرق ہوتا ہے؟ کیا ارینج میریج کے بعد ایک دوسرے کو ہاتھ لگائے بغیر بچے پیدا ہوجاتے ہیں ؟ کیا وہاں عزت مجروع نہیں ہوتی؟
اب آپ کہیں گے کہ پسند کی شادی کرنے والے ایک courtship period  گزارتے ہیں جو ارینج میریج کرنے والوں کو میسر نہیں آتا مگر یہ بات بھی پوری طرح درست نہیں ہے ہماری نوجوان نسل نے اسکا بھی ایک وطیرہ نکال لیا ہے آج بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز بنانے کا رواج عام ہے جس کے زریعے لڑکے لڑکیاں courtship period بھی گزار لیتے ہیں اور شادی کے لئے اپنے والدین کے آگے سر تسلیم خم کردیتے ہیں تو کیا ہم آیئڈیل معاشرے کی بنیاد رکھ رہے ہیں؟ جہاں والدین کی عزت بھی برقرار رہتی ہے اور اور نوجوانوں کی خواہشات کی آسودگی بھی ہوجاتی ہے۔ سوال پھر وہیں آکھڑا ہوتا ہے آخر ہمارے معاشرے نے لڑکی اور لڑکے کو اپنی پسند کا جیون ساتھی چُننے کی محبت کرنے کی اجازت کیوں نہ دی؟
تصویر کا ایک اور رُخ دیکھیے اور وہ ہے جہیز ۔ یہ رسم کہاں سے آئی ؟ اس کا آغاز کہاں سے ہوا کب ہوا؟ آج ہمارے ٹی وہ چینلز پر ایسے پروگرام دکھائے جاتے ہیں جن میں ایک غریب گھرانے کی لڑکی کا نکاح ٹی وی چینل والے کرواتے ہیں اور اسکے لئے سارا جہیز اور شادی کے خرچے کا انتظام کرتے ہیں اور یہ ہزاروں میں سے کوئی ایک لڑکی ہی ہوتی ہے حکومتی اور نجی سطح پر اجتماعی شادیاں بھی کروائی جاتی ہیں جن کا ایک اہم فیکٹر جہیز ہی ہوتا ہے ۔ آخر ہم نے ٹی وی پر ایسا پروگرام کیوں نہ دکھایا جس میں بغیر جہیز کے شادی ہو اور شادی کے بعد بھی لڑکے والے کبھی جہیز نہ لانے پر لڑکی کو طعنہ نہ دیں مگر افسوس ہمارے لالچی معاشرے میں یہ آیئڈیل رویہ کبھی ںہیں دیکھائی دیتا۔
سونے کے زیورات اور لاکھوں کا جہیز اگر کسی کے مقدر میں ہے تو ہی اُس کی ڈولی اُٹھ سکتی ہے ،غریب مایئں ساری عمر ایک ایک روپیہ جوڑ کر ایک دھات کا زیور خریدتی ہیں جس دھات کو سونا کہتے ہیں کہ شاید اس لالچ میں ہی کوئی باعزت انسان اُس کی بیٹی کو بیاہ کر لے جائے اور جو مایئں اس کسوٹی پر پورا نہیں اُتر سکتی اُن کی بیٹیاں لمبے انتظار کے بعد وہی زندگی گزارتیں ہیں جو بیوہ عورتیں گزارتیں ہیں ۔ ہمارے معاشرتی رویوں نے کوئی کسر باقی تو نہیں رکھی مگر پھر بھی یہ اللہ کا فضل ہی ہے جس نے آج تک ہم سب کو ڈھانپا ہوا ہے ہماری تمام تر برایئوں کے باوجود گلشن میں بہار آتی ہے خدا لوگوں کے لئے وسیلے بناتا ہے اور ہر ایک کی جو طلب ہوتی ہے وہی طلب پوری کرتا ہے مگر کیا ہم اپنے اندر بہتری نہیں لا سکتے کہ اب مزید لڑکیاں معاشرتی بیوایئں نہ بنیں؟