Sunday, August 26, 2012

احساسِ کمتری


پہلی بات تو یہ کہ مجھے جتنی گزشتہ پوسٹس پر کمنٹس موصول ہورہے ہیں اُس میں لوگ کہتے ہیں "تحریراچھی ہے" حالانکہ میرا خیال ہے میری پوسٹس کو "باتیں" گردانا جائے ،جھوٹی سچی جیسی بھی ہیں یہ سب باتیں ہیں ان کو میں نے تحریر کی طرح سوچ سمجھ کر،تحقیق کرکے  نہیں لکھا conscious  ہو کر نہیں لکھا کہ کوئی تحریر لکھی جارہی ہے بس باتیں کی ہیں یا یوں کہیں کہ باتیں بنائی ہیں باتوں کی کوئی خاص زبان نہیں ہوتی کوئی طے شدہ ایجنڈا نہیں ہوتا بس ایسے جیسے کبھی سالوں پہلے لوگ خط لکھا کرتے تھے ویسے اب open letters  لکھتے ہیں اُنہیں ہم بلاگ پوسٹ کہہ دیتے ہیں یہ بھی ایک luxury ہی ہے سب سے باتیں کرنا اتنے سارے لوگ آپکی باتیں سُن رہے ہیں اس بات پر کتنی خوشی ہوتی ہے یہ باتوں کے رسیّا لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں جیسے دورانِ گفتگو ہم چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ میری بات سُن لو میری بات سُن لو یہاں پر اپنی باتیں سُنانے کے لئے آوازیں بھی نہیں لگانی پڑتیں خدا کا کرم ہوتا ہے کہ لوگ خود خوشی بخوشی آپکی باتیں سُنتے ہیں پھر سُن کر باتیں بھی نہیں سُناتے تو اتنی وضاحت کافی ہے آگے بڑھتے ہیں آج ہم آپکو آپ سب لوگوں کے بچپن کی ایک کہانی یاد دِلایئں گے آپ میں سے بہتیروں نے تو یہ کہانی سُن رکھی ہوگی اس لئے دوبارہ سُن لیجئے بہت سے ایسے بھی ہوں گے بچپن میں ایسی کہانیاں مِس ہوگئی ہوں گی جیسے مجھ سے جوانی میں بہت سی باتیں مِس ہوگئی ہیں تو بات بے بات کہانی یہ ہے کہ
"ایک کھنکھجورا تھا ،سو ٹانگوں والا کھنکھجورا جسے ہمcentipede  کہتے ہیں سارا دن اپنی خوراک تلاش کرتا ہنسی خوشی زندگی بسر کرتا ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتا کھاتا پیتا موجیں اُڑاتا پھر ایک دن کچھ یوں ہوا کہ کچھ لوگ اُسے ملنے آئے اور اُن میں سے کسی نے کھنکھجورے سے پوچھا بھئی ہم تو تمہیں دیکھ دیکھ کر محوِ حیرت ہیں ، کھنکھجورے نے پوچھا مجھ میں ایسی کیا حیرت کی بات ہے ؟ اُنہوں نے جواب دیا ہمیں حیرت ہے کہ آپ کی سو ٹانگیں ہیں اور پھر بھی بھاگے دوڑے پھرتے ہیں آخر ایسا کیوںکر ممکن ہے ؟ سو ٹانگوں کے ساتھ کوئی کیسے چل سکتا ہے؟ کھنکھجورا حیران ہوگیا بولا "کیا واقعی میری سو ٹانگیں ہیں؟ کیا واقعی میں سو ٹانگوں کے ساتھ اتنی پُھرتی سے چلتا پھرتا ہوں؟" "ہاں ہاں آپکی سو ٹانگیں ہیں" جواب سُن کر تو کھنکھجورے کا دل بیٹھ گیا کھنکھجورے کو تو کبھی معلوم ہی نہ تھا کہ اُسکی سو ٹانگیں ہیں مگر جب سے اس راز پر سے پردہ ہٹا کھنکھجورے کی ساری زندگی بدل گئی اب وہ ہر وقت یہی سوچتا کہ میں کیسے چل سکتا ہوں ؟ پہلے کونسا پاؤں اُٹھاوں دوسرا پیر پہلے اُٹھاؤں یا چھبیسواں میرا اُنتیسواں پاؤں پہلے آگے پڑنا چاہیے یا دائیں طرف کا چالیسواں ؟کیا مصیبت ہے یہ سو ٹانگوں کے ساتھ چلنا تو ناممکن ہے کھنکھجورے کو سمجھ ہی نہ آیا کہ کیسے چلا جائے اور اس دن کے بعد وہ کبھی نہ چل سکا نہ اپنی خوراک تلاش کرسکا اور وہیں پڑا پڑا مر گیا۔
یہ خود آگاہی ہوتی ہے ، لاشعور سے شعور کا سفر ہوتا ہے یا نہ جانے یہ کیا ہوتا ہے، کھنکھجورے کی یہ کہانی سب نے بچپن میں سُن رکھی ہے مگر مجھے اُس وقت یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب میرا حال بھی ویسا ہی ہوگا جو سو ٹانگوں والے کھنکھجورے کا ہوا، ہم میں سے بہت سے لوگوں کے ساتھ مجبوریوں ،کمتریوں یا کچھ الگ خصوصیا ت کی چھاپ ہوتی ہیں مگر ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا ہم بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں منصوبے بناتے ہیں مگر ایک دن کچھ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ آتے ہے اور آپکو چُپکے سے بتا جاتا ہے کہ آپکی سو ٹانگیں ہیں اب ایک سو ٹانگوں والا انسان دو ٹانگوں والے انسان کے آگے بےبس سا محسوس کرتا ہے ۔ پہلے بھی تو یہ سب مسئلے تھے پہلے بھی زندگی ایسی ہی مشکل تھی پہلے بھی حالات اور مجبوریوں نے پاؤں جکڑے ہوئے تھے مگر ہم پھر بھی دوڑے پھرتے تھے اب ہم میں جب سے خود آگاہی کا زہر گُھلا ہے ہم کچھ نہیں کر پاتے ۔میں کیسے چل سکتی ہوں ؟ خدایا میری ہی سو ٹانگیں کیوں ہیں؟
 یہ احساسِ کمتری self discovered  نہیں ہے ابھی بھی اگر ہمیں لوگ نہ بتاتے تو ہمیں کبھی معلوم ہی نہ ہوتا کہ ہماری سو ٹانگیں ہیں اس بات کا ہمیں احساس کروایا گیا ہے زبردستی ہماری آنکھیں کھولی گیئں ہیں میں گھنٹوں یہی سوچتی رہتی ہوں کہ کیا پہلے بھی سب کچھ ایسے ہی تھا ہاں پہلے بھی سب ایسے ہی تھا حقیقتیں نہیں بدلی بس اب محسوس ہونے لگیں ہیں "میں نہیں کرسکتی ، میں کیسے کرسکتی ہوں، ہا ہائے یہ میں کبھی بھی نہیں کرسکتی" بس اب یہی زندگی میں رہ گیا ہے اپنی کمزوریوں اپنی حقیقت سے سامنا کرنا بہت مشکل بات ہے مجھے اِس بات کا کبھی علم ہی نہیں تھا کہ یہ "اوقات" کیا ہوتی ہے اور اب احساسِ کمتری نے اپنی اوقات کے دندل میں پھینک دیا ہے اب ہمیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ "اپنی اوقات میں رہو" کیونکہ پہلے ہمیں اپنی اوقات یاد نہیں تھی اور اب بھولتی نہیں ہے، کیا ہم دوبارہ چل پائیں گے؟ کیا سو ٹانگوں کے ساتھ چلا جاسکتا ہے؟ کیا ہماری اوقات ہی ہماری پہچان بن جائے گی؟ لوگ ہمیں خود سے روشناس کروانے پر کیوں تُلے ہوتے ہیں؟ کیا احساسِ کمتری کے علاوہ بھی کوئی اور احساس ہوتا ہے؟ تو آخر وہ ایسے محسوس کیوں نہیں ہوتا جیسے یہ ہوتا ہے؟ دیکھتے ہیں ہم سب دیکھتے ہیں سو ٹانگوں والا کھنکھجورا کہاں تک چل پائے گا اور وہ بھی ایسا کھنکھجورا جسے اپنی سو ٹانگوں کا علم بھی ہے ، مگر کاش ہمیں خود آگاہی نہ ہوتی ہمیں خود سے متعارف ہی نہ کروایا گیا ہوتا ہم کتنا خوش تھے ،لاعلمی بھی بعض اوقات کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔

Monday, August 13, 2012

اقبال__ میری لاگ اور لگاؤ کی نظر میں

ممتاز مفتی کی طرح میری نظر بھی لاگ اور لگاؤ سے پاک نہیں ہے میں جو بھی اس تحریر میں لکھوں گی صرف اپنی ںظر کے مطابق لکھوں گی حالانکہ یہ پوسٹ اقبال کے بارے میں ہے مگر میں اس میں سب کچھ اپنے بارے میں لکھوں گی کیونکہ ایک بلاگ پوسٹ میں اقبال کیسے سما سکتا ہے وہ بہت بڑا انسان ہے میرا اور اقبال کا تعلق اتنا محدود ہوسکتا ہے کہ ایک پوسٹ میں سما جائے مگر اقبال پر اتنی ضخیم کتابیں لکھی گئی وہ اُن میں نہ پوری طرح سما سکا میری ایک بلاگ پوسٹ میں کیا سمائے گا۔
میں نے لوگوں سے ایک سوال پوچھا ہے کہ "آپ نے اقبال کو کس عمر میں پڑھنا شروع کیا؟"۔ سب کے جوابات کے مطابق text books  میں پہلی جماعت میں ہی اقبال کی "بچے کی دعا " شامل ہے تب سے لیکر بارہویں جماعت تک ہر ایک نے نصابی کُتب میں اقبال سے ملاقات کی ہے مگر میرا سوال تھا کہ غیرنصابی اقبال کو کب پڑھنا شروع کیا ؟ خوشقسمتی سے ایسے لوگوں کی بہتات ہے ہمارے ملک میں جنہوں نے شروع عمر  سے اقبال کو پڑھا۔یہی سوال میرے سے پوچھا جائے کہ اقبال کو کس عمر میں پڑھنا شروع کیا؟ تو جواب کچھ یوں ہے کی جیسے ہی میں نے پریپ کلاس پاس کی اور میرے ماں باپ کو یقین ہوگیا کہ اب ہماری بیٹی "پہلی" جماعت میں جائے گی اُنہوں نے میرے سامنے ایک پتلی سی رسالہ نما کتاب رکھ دی ایک صفحہ کھولا گیا اور کہا گیا "آ بابا آ" والا قاعدہ پڑھ لیا ہے اب اسے پڑھ کر دکھاؤ نظم کا نام "ہمدردی" تھا میرا یقین کیجیے جن کی زندگی میں درد آنا ہوں اُن کی زندگی میں درد آنے سے پہلے اقبال کی "ہمدردی" ضرور آتی ہے ۔بامشکل پانچ سال کی عمر میں اقبال کی "بانگِ درا " سے ملاقات ہوگئی ،نظم سنائی، والدین خوش ہوگئے. کچھ ماہ بیتے ہو ں گے گھر میں ایک فریم کی ہوئی بڑی سی تصویر آگئی پوچھنے پر معلوم ہوا یہ حضرت علامہ اقبال ہیں میں حیران اور پریشان تھی یہ کیسی تصویر ہے یہ کیسا pose  ہے میں بار بار تصویر کو جاکر دیکھتی رہتی پہلے مصنف کا کلام گھر آتا ہے خدا کی مہربانی دیکھیئے پھر وہ خود ہی گھر آجاتا ہے میں نے پاپا سے پوچھا پاپا یہ علامہ اقبال کو چیل پالنے کا کیوں شوق تھا ؟ پاپا نے کہا یہ کس نے کہا ہے تمہیں ؟ میں نے جواب دیا اس تصویر میں علامہ اقبال کے پیچھے جو چیل ہے اُنہوں نے خود نہیں پالی تھی؟ یہ چیل اُنہیں کچھ کہتی نہیں تھی؟ اُنہیں اس سے ڈر نہیں لگتا تھا؟ پاپا نے چیل کا تعارف کروا دیا چیل اصل میں "شاہین" تھی اب ہر وقت گھر میں اقبال کی "سوچتے ہوئے" کی پوز تصویر بیک گراونڈ میں شاہین کے ساتھ میری توجہ کا مرکز بنی رہی گھر میں اقبال تھا تو سکول میں بھی اقبال ہی اقبال تھا۔ سکول کی اسمبلی میں سٹیج پر روز بچے ہاتھ میں موم بتی پکڑے "لب پہ آتی ہے دعا" پڑھتے ۔ PTV  پر اُنہی دنوں میں ایک نظم نشر ہوئی "پرندے کی فریاد"
"آتا ہے یاد مجھکو گزرا ہوا زمانہ وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آذادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلوں کی اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا"
یہ کیا تھا؟ زندگی میں ٹریجیڈی سے تعارف ہوگیا ۔جو قید اور آزادی کے درمیان چھُپی تھی ۔اب اقبال اور نئے طریقوں سے ملنے والے تھے اب تک میں نے صرف پُتلی تماشے ہی تھیٹر میں دیکھے تھے کہ پاپا نے کہا آج 9 نومبر ہے آج ہم الحمرا ہال میں اقبال ڈے کا شو دیکھنے جائیں گے اُس وقت میری عمر آٹھ سال تھی یہاں آکر اقبال صرف بچوں کا شاعر نہیں رہا "ایک پہاڑ اور گلہری" "ایک گائے اور بکری" ،"ماں کا خواب" صرف اقبال نہیں تھے مجھے معلوم ہورہا تھا کہ بھئی یہ اقبال تو کچھ اور ہی ہیں تقریب میں بڑے بڑے لوگوں نے بڑی بڑی تقریریں کیں جو ساری میرے سر کے اوپر سے گزر گئی مگر یہ محسوس ہوگیا کہ یہ کوئی عام شاعر نہیں ہیں پاپا نے صحیح کہا ہوگا جو تصویر گھر میں ہے اُس میں اقبال کچھ بہت بڑا سوچ رہے ہیں وہ پاکستان کے بارے میں سوچ رہے ہیں وہ پاکستان کے خواب کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
اب تو ایک سلسلہ اقبال چل نکلا میں تیسری جماعت میں پڑھتی تھی کہ ایک وفد چایئنہ سے خاص طور پر لاہور دیکھنے آیا تھا وہ سکول کے دورے کے لئے آئے مجھے حیرت ہورہی تھی کہ اب یہ چینی لوگ ہم سے کیا باتیں کریں گے انہیں اُردو بھی نہیں آتی ہوگی مگر جب وہ ہماری کلاس میں وارد ہوئے اور اُس کے بعد جوحرکت اُنہوں نے کی میں ہکابکا رہ گئی اُنہوں نے بلیک بورڈ پر اُردو لکھی اور اُردو میں لکھا تھا "شاعرِ مشرق" اور کہا بچوں کیا آپ بتا سکتے ہیں شاعرِ مشرق کون ہیں؟ یہ سوال چین کے باشندے پوچھ رہے ہیں اور ساری کلاس نے جواب دیا "علامہ اقبال" وہ سب چھ یا سات لوگ اقبال کے بہت بڑے fan  تھے اُن کے لئے لاہور کی سب سے بڑی پہچان یہی تھی۔ایک آٹھ سال کے بچے کا راسخ عقیدہ بنانے کہ لئے کے اقبال ہی شاعرِ مشرق ہیں یہ واقعہ کافی تھا یہ بہت کم واقعات ہیں میرے بچپن کے جو مجھے بہت واضح طور پر یاد ہیں غیر واضح اور بھی بہت سی یادیں ہیں جن میں اقبال کی شمولیت ہے جیسے چُھٹی کے دن شاہی قلعے جانا مزار اقبال میں حاضری دینا ۔اقبال کے بچپن کے بےتہاشا قصّے ہوں گے جوپاپا نے سُنائے جن میں سے مجھے یاد رہ گیا کہ اقبال ہمیشہ اپنی کلاس میں دیر سے آتے جب ماسٹر پوچھتا کہ اقبال دیر سے کیوں آتے ہو تو جواب دیتا "کہ اقبال ہمیشہ دیر سے ہی آتا ہے" یہی سچ ہے دوستوں کوئی بھی پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھتے بلندی پر نہیں پہنچ جاتا بلندی ہمیشہ تھوڑی دیر سے آتی ہے۔
اب سکولوں میں کیا ہوتا ہے؟ مجھے معلوم نہیں ہے مگر یہ وہ دور تھا نّوے کی دہائی کا جب اقبال ہی سکولوں میں غالب تھا پھر ایک دن جب میں پانچویں جماعت میں پڑھ رہی تھی پاپا کہتے ہیں اُردو لکھنی نہیں آتی تم لوگوں کو اِملا کیا کرو اب لکھواتے اِملا تھے مگر لفظ لکھوانے کی بجائے ایسی سوچوں اورافکار کی پٹاری کھولتے تھے کہ پُرتجسس بچوں کی زندگی کا سکون برباد ہوجائے دس سال کے بچے کو اُردو کی اِملا میں لکھواتے تھے کہ ارسطو سقراط کا شاگرد تھا اور افلاطون ارسطو کا ۔ اب بچہ سوچتا رہتا یہ ہیں کون ارسطو ، سقراط اور افلاطون۔ ایک دن ایک فتنہ لکھوادیا دس سال کی بچی کو ،ایک پیراگرف اقبال کے بارے میں کہتے ہیں یہ لکھو کہ اقبال نے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اُن کا مضمون تھا "ایران میں مابعدالطبیعات کا ارتقاء" ۔پاپا کے مطابق اس سے آسان لفظ بچوں کے لئے نہیں ہوتے میں نے پوچھا یہ کیا ہوتا ہے "مابعدلاطبیعات" کہتے ہیں "غیر مادی چیزوں کا علم" مبارک ہو زندگی میں فلسفہ آگیا کیونکہ اقبال معلوم ہوا شاعر نہیں ہے میرا مطلب شاعر تو ہیں مگر حکیم الامت درحقیقت فلسفی بھی ہیں میں کیونکہ تھوڑی لالچی انسان ہوں میرا جی چاہا کاش جیسے شاعر اقبال سے ملاقات ہوتی ہے ویسے ہی فلسفی اقبال سے ملاقات ہوتی رہے۔ اقبال سے جو ملتا اُن کا گرویدہ ہوجاتا میں بھی ہورہی تھی پھر فلسفے کا راستہ چل نکلا کچھ 11 اور 12 کی عمر انگریزی اور تھوڑا سا فلسفے کو پڑھنے میں صرف ہوگئی کہ ایک دن اچانک ظالم حکومت نے انڈین چینلز بند کردئیے جی میں سارا دن فلسفے کی کتابیں پڑھنا اور ساری رات کیبل پر انڈین ڈرامے دیکھنا پسند کرتی تھی ساتویں جماعت میں ان چینلز پر پابندی لگ گئی اب ساری شام رات ویران ہوگئی پاپا کی چالاکی کی حِس جاگی سوچا بچوں کو نئی لائن پر لگا دوں گھر میں کلیاتِ اقبال کی دو کاپیاں موجود تھیں ایک میں معنی اور تشریح بھی تھے مگر پاپا ہمیشہ بغیر معنی والوں سے پڑھاتے، سٹار پلس کے ڈراموں کو دیکھنے والا وقت اب کلیات اقبال پر پاپا کے لیکچرز سُنتے گزارا جاتا پہلی نظم جو میں نے پڑھی وہ "شکوہ" اور دوسری "جوابِ شکوہ" تھی  میں نظم پڑھتی اور پاپا مجھے ساری تشریح سُناتے جاتے۔ اسطرح چینلز کی بحالی تک کلیاتِ اقبال دو سال تک تقریبا باقاعدگی سے پاپا نے پڑھائی۔ اس کے بعد پاپا نے اقبال نہیں پڑھایا وہ مصروف ہوگئے توجہ ہی نہ دی یا بس اُن کا کام تعارف کروانا ہوتا ہے ایک چیز سے ملوا کر چھوڑ دیتے ہیں آگے کا رستہ کہتے ہیں خود طے کرو ۔ اُس کے بعد جو ہوا اُس میں وقت کی شدید کمی تھی تربیت کے 6،7 سال پورے ہوچکے تھے ماں باپ تعلیم کے حوالے کرکے بچوں کو بھول جاتے ہیں مگر کہیں بھی اقبال absent  نہیں ہوئے میری کلاس فیلوز شاعر صفت نکل آئیں میٹرک میں روز خودی پر بحثیں چھڑ جاتیں پورے دو سال میٹرک کے ہم نے اقبال کی خودی میں سر دھنسائے رکھا۔ اُس کے بعد کے حالات مجھے صاف صاف یاد نہیں ہیں میری یاداشت کی طاقت ascending  نہیں descending order  میں چلتی ہے جتنا مجھے ماضیِ بعید یاد ہے ماضی قریب اُتنا ہی دھندلا ہے مگر کچھ باتیں جو یاد رہ گئی ہیں ان میں بھی اقبال شامل ہے جیسے دسویں جماعت میں سکول کے کچھ بچوں کو اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک تقریب میں بلایا گیا میں نے وہاں پہلی مرتبہ جاوید اقبال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اقبال کا بیٹے کو دیکھنا حالانکہ یہ ایک معمولی بات تھی مگر میری عقیدت بہت زیادہ ہے اسلئے یاد رہ گئی حال میں بھی میں اُن کو دیکھا ہے اور بہت عاجز انسان پایا ہے ۔ہم نے سوچا "زندہ اقبال"تو نہیں دیکھا "زندہ جاوید" دیکھ لیا۔ ماریہ عمر اور ماریہ اقبال دونوں نے اقبال کو پڑھا ہوا تھا دونوں کے گھر کلیاتِ اقبال موجود تھی اب بھی ہے دونوں کے والدین اقبال شناس تھے اور کیا چاہیے تھا ۔مگر اقبال کا جنوں تھا سر چڑھ کر بول رہا تھا میں ساری رات
"نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی" پڑھتی
ماریہ آتی ہے کالج میں "علم اور عشق" زبانی یاد کی ہوئی ہے ایک صفحے پر لکھ کر بھی لائی ہے واہ واہ ہوتی ہے ۔اسی طرح کالج کے دن تھے یا سکول کے مجھے یاد ہی نہیں ہے وقت کے بارے میں کچھ مگر میرے گھر میں لاتعداد ایسی کتابیں نکل آتی جس میں اقبال کی شخصیت نگاری کی گئی تھی ایسی باتیں معلوم نہ ہونا بھی المیہ ہوتا ہے کہ شاعر پڑھ لیا مگر اسکی زندگی نہ پڑھی ایسے لاتعداد واقعات ہیں اقبال کی زندگی کے انسان ان کی عقل و فہم کا قائل ہوجاتا ہے ۔طلبا کا گروہ ملنے آتا ہے اقبال سے جاتےہوئے کہتا ہے سر آپ ہمیں کوئی پیغام دیجیے اور اقبال کی حِس لطافت جواب دیتی ہے کہ آج تک میں نے جو بھی لکھا ہے سب آپ نوجوانوں کے نام پیغام ہے آپ میرا پہلا پیغام تو پڑھ لیجئے پھر اور کی گزراش کریں ۔
سر سے یاد آیا کہ کیسے اقبال نے یہ شرط برٹش گورمنٹ کے سامنے رکھی کہ میرے استاد محترم سیّد میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دیجئے پھر میں "سر" کا خطاب قبول کروں گا۔ اس طرح کے ہزاروں واقعات ہیں جو کتابوں میں بھرے پڑے ہیں جنہیں کوئی بھی باآسانی پڑھ سکتا ہے۔ اقبال کی پرسنل زندگی کو جاننا اقبال کا حُقہ ،دمہّ ، بیوی اور بچے اُن کا حضرت داتا گجن بخش سے لگاؤ اقبال کا مذہب سے لگاؤ، اقبال کی ہر بات ان کی سوچ کی عکاس تھی جو سب کتابوں میں درج ہے۔ اقبال نے شاعری "پیغمبری" سمجھ کرکی۔
بارہویں جماعت کے بعد جب ہر کوئی سوچتا ہے کہ اب آگے کیا کریں گے اور یہاں مجھے فکر پڑی رہتی "اب کیا کریں گے اقوامِ مشرق" "پس چہ بائد کرد اے اقوامِ مشرق" فارسی میں تھی مگر اس کتاب کا ترجمہ انسان کو بے چین بے قرار کردیتا ہےکہ دنیا میں ہو کیا رہا ہے۔ پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ یہ کتاب ضرور پڑھئیے "حکمتِ فرعونی" ضرور پڑھیے یہ بہت سادہ اور آسان فہم کلام ہے اقبال کا۔
کچھ سال پہلے a spotlight on spotless Islam”" پڑھنے کی کوشش کی ہے یہ کتاب بھی اقبال کے فلسفہ نثر اور فلسفہ شاعری کے کھلے تضاد پر تنقید تو ضرور کرتی ہے مگر شاعری کی افاقیت اور برتری کو تسلیم کرتی ہے۔ اقبالیات پر بےتہاشا کتابیں موجود ہیں مگر ایک اچھی اور صحیح کتاب سو کتابوں پر بھاری ہوتی ہے۔ اقبال کی تصنیف "Reconstruction of Religious Thoughts in Islam”  ایک ایسی کتاب ہے جو ہم میں سے بہت سے لوگوں کی facebook  کی فیورٹ کتابوں کی لسٹ میں ہے بہت سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ یہ کتاب پڑھ چکے ہیں مگر مجھے اس بات پر شک نہیں کہ اُنہوں نے یہ کتاب پڑھی ہوئی ہے مگر اس بات پر شک ضرور ہے کہ ان سب لوگوں کو کیا یہ کتاب سمجھ بھی آئی ہے ؟کیونکہ پوری کتاب میں اقبال نے تمام بڑے بڑے فلاسفروں اور سایئنسدانوں کی تھیوریوں کا موازنہ قرآنی آیات سے کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اسلام ہی وہ واحد حقیقت ہے جو سب سے برتر ہے مگر اس کے لئے تمام مغربی فلاسفروں کی افکار اور نظریات کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آج تک اتنے سال گزرنے کے بعد بھی جدید نظریات اور سوچ کے درمیان میں عالمی لیول پر اگر آپ اسلام کا مقدمہ لڑ سکتے ہیں، اسلام کو defend  کرسکتے ہیں تو آپ کو اُس عقل کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے جو اقبال نے اس کتاب میں حل کردی ہے ۔ آج کل ایک کتاب میرے ہاتھ میں ہے جس کا نام ہے "Iqbal and post Kantian Voluntarism" جس میں تمام بڑے مغربی فلسفیوں Bergson ,Nietzsche, Goethe اور  Milton  سے اقبال کے فلسفے کا موازنہ کیا گیا ہے اور اقبال کی سوچ پر ان سب کا اثر بیان کیا گیا ہے۔" شرحِ اسرار خودی "پڑھنے کے قابل ہے "اسرارِ خودی" کا ترجمہ بہت سی زبانوں  میں کیا گیا ہے اقبال کی زندگی میں ہی اس کتاب کا انگریزی ترجمہ کر لیا گیا تھا اور بہت سے مغربی مفکر اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اقبال کے قائل تھے ۔ اقبال نے passive  تصوف کے خلاف لکھا۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اقبال صرف کتابوں تک ہی محدود ہے زندگی میں ؟ نہیں اقبال سے سوال بھی پوچھے جاتے ہیں اور اقبال جواب بھی دیتے ہیں  abnormality اور  adventure  کیوں انسان کے اندر سرایئت کیا ہوا ہے؟ اس کا جواب اقبال ہی دیتے ہیں کہ دیکھو
 "میں تراشتا ہوں ،پونجتا ہوں اور توڑ دیتا ہوں"

اقبال سے پوچھا گیا ہے کہ زندگی برباد ہوگئی ہے اب کیا کریں ؟ اس کا جواب بھی اب اقبال ہی دیں گے۔ کیا اقبال کتابوں کی دنیا سے باہر نہیں ہے؟ تو ایسا نہیں ہے آیئں real world  میں داخل ہوتے ہیں یقین کریں اقبال کہیں بھی پہنچ جاتے ہیں مثال کے طور پر پنجاب یونیورسٹی کا نام تو ہم سب نے سُنا ہی ہوا ہے اقبال یہاں بھی ہیں۔  جس کا نام ہی اقبال کے نام ہے اُس علامہ اقبال کیمپس میں "اقبال گیلری" بھی موجود ہے صبح شام آتے جاتے لوگ اقبال سے روشناس ہوتے ہیں اس گیلری میں اقبال کی زندگی کے مختلف ادوار کی یادگار تصویریں لگیں ہیں اور پوری گیلری میں پاکستان کے مشہور پینٹر "اسلم کمال" کی وہ پینٹگز لگائی گئی ہیں جن میں اسلم کمال نے اقبال کی شاعری کو تصویروں میں ڈھال دیا ہے اور ہر پینٹنگ سے متعلقہ شعر اس کے نیچے بمعہ انگریزی ترجمہ درج ہے۔اقبال کے شعروں میں گہرائی موجود ہے جو بار بار repeat  ہونے پر بھی اپنا ذرا سا بھی اثر نہیں کھوتیں ۔ گیلری کے ایک کنارے اقبال کی مغربی لباس میں تصویر ہے اور دوسرے کنارے اقبال نے مشرقی لباس اور شال اُوڑھی ہےیہ جگہ اپنی مثال آپ ہے اور اسکا سبب بھی اقبال کا سحر ہی ہے اقبال کی popularity  ہی ہے۔آیئں آپ کو یہاں کی سیّر کرواتے ہیں ۔






اقبال گیلری میں موجود پینٹنگز


















 




  ابھی اتنا بور ہونا کافی ہے مگر ایک بات یاد رکھئے یہ سب پاکستان میں ہوتا ہے اور یہ پاکستان ہے اقبال "شاعرِ مشرق" بھی ہیں اور "مفکرِپاکستان" بھی ہیں۔

 الله آپ سب کو خوش رکھے۔آمین


Monday, August 6, 2012

شناخت یا آیئڈیولوجی ؟




ایک سوال ہے میرے سامنے کہ میں کیا بنوں؟ یہ وہ وقت ہے زندگی کا جب میں اپنا پروفیشن منتخب کر چکی ہوں اب مسئلہ یہ نہیں ہے کہ میں نے ڈاکٹر ، انجینیر یا پایلٹ یا صحافی یا مصنف یا بینکر بننا ہے اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ میں ideologically  کیا بنوں؟ ایک لِسٹ ہے آدرشوں کی میرے سامنے جو میں اپنا سکتی ہوں مثال کے طور پر میں بن سکتی ہوں
·         لبرل liberal
·         فاشسٹ fascist
·         کنزرویٹِو conservative
·         سوشلِسٹ socialist
·         نیشنلسٹ nationalist 
·         سیکولر secular
·         تھیولوجِسٹ theologist
·         ہیومنسٹ humanist
·         فیمینیسٹ  feminist
·         Fundamentalist
·         Rationalist
·         کلچرِسٹ
·         کومیونیسٹ communist
·         Sophist
·         Marxist
·         Activist
·         Revolutionist
·         مُلا
کیونکہ میری یاداشت کمزور ہے لہذا بہت سے الفاظ میرے دماغ میں نہیں آرہے یہ محض چند لفظ نہیں ہے بلکہ ہر لفظ کی تہہ میں ایک پوری آیئڈیولوجی چھپی ہوئی ہے۔ میں ان کے خلاف ہر گز نہیں ہو مگر جب بھی میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنانے کی کوشش کی تو میں پورے دل سے نہیں کرپائی ایسا نہیں میں نے کوشش نہیں کی مگر میرے دماغ میں بچپن سے ایک ہی concept  سرایئت کیا ہوا ہے کہ یا تو چیزیں غلط ہوتی ہیں یا صحیح اب مجھے جب بتایا جاتا ہے کہ دیکھیں لبرل کے لئے ایک چیز صحیح  ہو سکتی ہے مگر کنزرویٹو کے لئے وہی بات غلط تو مجھے ہضم نہیں ہوتا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے بھلا؟ ایک مثال اور ہے کہ آپ کی آیئڈیولوجی کیا ہے اور آپ کے والدین اور خاندان والوں کی آیئڈیولوجی کیا ہے؟ پہلے ایسے ہوتا تھا کہ میرے کسی دوست کے والد کا تعارف ان کا پروفیشن ہی تھا اب ہم چیزوں کو کسی اور طرح بیان کرنا سیکھ گئے ہیں آپ اِسے ہماری چالاکی کہہ سکتے ہیں کہ جن سوالوں کا جواب میرے پاس پہلے نہیں ہوتا تھا اب ہے ۔ اب اگر میرے والدین مجھ سے پوچھتے ہیں کہ فلاں لڑکی اتنی آذاد کیسے ہے؟ تو میں فوری جواب دیتی ہوں کیونکہ اُس کے والدین لبرل ہے یا پہلے میرے سے پوچھے جانے والے سوالوں کا جواب میرے پاس نہیں تھا اب میں اُن سوالوں کا جواب ایسے دیتی ہوں میں یہ یہ یہ یہ یہ سب نہیں کرسکتی کیونکہ میرے والدین کنزرویٹیو ہیں اس سب آیئڈیولوجیز سے ہمیں کافی رہنمائی مل رہی ہے لوگوں کو اپنے رویے سمجھانے اور دوسروں کے رویے سمجھنے میں ، مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپکو کہا جاتا ہے
Why not you leave your parents if they are conservative?
 میں اُنہیں صرف اس بات پر نہیں چھوڑ سکتی کہ وہ  conservative ہیں جو struggle  اُنہوں نے اتنے سالوں میں  میرے لئے کی ہے وہ تو دوسرے نہیں جانتے صرف یہ ایک لفظ جان جانے سے اُنکی آیئڈیولوجی کا ،وہ کیسے ایسا سوچ سکتے ہیں ۔ مسئلہ یہاں شناخت کا آجاتا ہے ۔ ہم میں سے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو صرف لبرل یا کنزرویٹیو یا سیکولر یا مذہبی کے دائرے کار میں محدود نہیں ہوسکتے میرے والدین لبرل ہیں کیونکہ ہم اکٹھے سینماوں میں فلمیں دیکھتیں ہیں اور کنزرویٹیو ہیں کیونکہ مجھے کہیں بھی اُنہیں بتائے یا اُن کے بغیر آنے جانے کی اجازت نہیں دیتے وہ چاہتے ہیں کہ ہم جب بھی باہر جایئں وہ ہمارے ساتھ ہوں ۔ اب وہ کیا ہیں ؟ میں کیا ہوں؟ وہ سیکولر ہیں وہ مذہبی ہیں ؟ ہم میں سے بہت سے لوگ کبھی نمازیں پابندی سے نہیں پڑھتے مگر مذہب کیلئے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں بہت سے ایسے بھی ہیں کہ مذہبی بہت ہیں نمازیں پڑھ لیتیں ہیں مگر مذہب کے نام ہر ایک بھی پیسہ نہیں خرچ کرسکتے تو آخر سیکولر کون ہے اور مذہبی کون ہے؟ میں ان میں سے کسی بھی آیئڈیولوجی کے خلاف نہیں ہوں مجھے معلوم ہیں ان آیئڈیولوجیز کے بل پر آج تک دنیا میں بہت کچھ اچھا ہوا ہے بہت سا امن ، مہذب معاشعرہ اور انسانی ہمدردی ۔انہیں کی گود سے نکلے ہیں مگر مجھے کہیں نہ کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان آیئڈیولوجیز میں اتنی زبردست طاقت موجود ہے کہ یہ انسان کی اپنی شناخت کو مس کردیتی ہیں مجھے "میں" بننا زیادہ پسند ہے ایک آزاد خیال ایک آزاد روح جو ان تمام تعصبات سے پاک ہو جس کے لئے صحیح بات ہی صحیح ہو اور غلط بات ہی غلط ہو ۔
کیا میں صرف اپنا آپ بن کر رہنا چاہتی ہوں ؟  یا لاشعوری طور پر ان تمام آیئڈیولوجیز کا ایک تصادم یا مکسچر بن کر رہنا چاہتی ہوں ؟ تصویر کا ایک اور پہلو بھی ہے ان آیئڈیولوجیز کا سسٹم زمانہ جاہلیت کے نسل و رنگ پرستی کے موافق بھی ہے کوئی کسی قبیلے کا ہے کوئی کسی نسل ہے ایک نسل سے تعلق رکھنے  والا اپنے آپ کو ہی افضل و برتر سمجھتا ہے یہ سب اختلافات ہیں جیسے اسلام آتا ہے اور سب کو ایک جھنڈے کے نیچے اکھٹا کرلیتا ہے ویسے کیا اسلام ہی ان سب آیئڈیولوجیز کے تضادات کو ختم کرسکتا ہے جو کہے کہ آپ سوشلسٹ ہیں یا کمیونیسٹ مگر اگر آپ مسلمان ہیں تو یہ زیادہ اہم اور بڑی بات ہے جو آپکو ساتھ جوڑے رکھے ۔ یا یہ سب آیئڈیولوجیز مذہب سے آزاد ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بن سکتا ؟
میں کیا بنوں میرے پاس یہی سوال ہے ۔ میں فطرت سے بہت ڈھیٹ انسان ہوں مجھے کبھی کسی بات پر آسانی سے رونا نہیں آتا مگر میرے ساتھ کیا ہوا کہ میں ایک کتاب پڑھ رہی تھی پچھلے سال ایک افسانہ اشفاق احمد کا "گڈریا"۔ میں بہت زیادہ صوفیانہ کام پڑھ چکی تھی اشفاق احمد کا مجھے بتایا گیا کہ یہ ایک ایسا افسانہ ہے جو لبرلز اور کنزرویٹیو دونوں میں یکساں مقبول ہے افسانہ پڑھتے ہوئے  یہ ایک ایسا مقام آیا جہاں میرے بے تہاشا آنسو بہے




یہ کیا تھا؟ داؤجی نے کہا کہ وہ بڑی لائق ہوگی اپنا سبق یاد کرتی ہوگی اور "مومن" ہوگی یہ کیسی شرط تھی، نظر یہ کہاں آکر ٹھہر گئی داو جی نے سچ میں ایسا کہا ہوگا اشفاق احمد نے تو اس وقت جب افسانہ لکھا کبھی بانو قدسیہ سے نہیں ملا ہوگا اُنہوں نے اتنا صحیح تُکا لگایا جو آگے جا کر سچ بھی ہوگیا ۔ "مومن" ہر مومن تو مسلمان ہوتا ہے مگر ہر مسلمان مومن نہیں ہوتا۔ یہ کیسی آیئڈیولوجی ہے سب لبرل ماڈرن سیکولر سب بھول گیا اس لفظ کو پڑھ کر داؤجی نے یہ کیوں نہ کہا کہ وہ بڑی مذہبی ہوگی؟ یا بنیاد پرست ہوگی؟ یا روایت پرست ہوگی؟ انجانے میں داؤجی نے یہ کیسی آیئڈیولوجی متعارف کروادی۔
کیا بننا چاہتی ہو؟
مومن؟ R u mad?
 مجھے لگتا ہے کہ میں ایک ایسا بچہ ہوں جس کے ماں باپ اُسے بازار لے جاتے ہیں اور وہ اپنے ماں باپ کی حیثیت سے کہیں بڑھ کر مہنگے لباس پر ہاتھ رکھے بیٹھا ہے کہ نہیں مجھے تو یہی لینا ہے بیٹا یہ ہم نہیں لے سکتے یہ بڑے خاص لوگوں کے لئے  ہوتا ہے، نہیں نہیں میں نے یہی لینا ہے مجھے اس کے مقابلے میں اب کچھ اور اچھا نہیں لگے گا۔ آیئڈیولوجیز کی آیئڈیولوجی جو شناخت ختم نہیں کرتی شناخت کو غیر مرئی کر دیتی ہے میرے ماں باپ کہتے ہیں تمہاری چوائس بڑی اُونچی ہے کیا یہ واقعی ہی بہت اونچی ہے؟