Saturday, May 13, 2017

میرا یہاں کون ہے؟

میرا یہاں کون ہے؟
کیوں میں یہاں آکر بس گئی ہوں؟ میرا یہاں کون ہے؟
کہتے ہیں عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا
سچ تو یہ ہے کہ عورت کا کچھ بھی نہیں ہوتا 
کوئی اپنا نہیں ہوتا
جو پیدا کرکے اس دنیا میں لاتے ہیں وہ خود دل پہ پتھر رکھ کر کسی کی ڈولی میں ڈال دیتے ہیں
ماں باپ کو ہمیشہ کیلیے پرایا کردو ہمیشہ کیلئے بھول جاؤ 
کیوں بھول جاؤں؟ کیوں پرایا کردوں ؟ 
جن کا نام سارا دن پکارتے تھے جو ہماری شکلیں دیکھ کر جیتے تھے 
اٌن سے ملنے کیلئے دن گننے پڑتے ہیں اجازتیں مانگنی پڑتی ہیں 
شادی کے بعد روز روز ماں باپ سے ملنا دنیا کا دستور نہیں
کیا ے تمہاری دنیا کا دستور؟ 
کسی کے دل کے ٹکڑے کو چھین لاؤ ،اپنا بناؤ 
اور اسکے اپنوں کو پرایا کردو؟
سسرال کیا ہوتا ہے آخر 
یہ عورت کی عزت ہوتا ہے اٌسکی چار دیواری ہوتا ہے 
مگر اس امتحان پر پورا اٌتر کر تو دکھاؤ 
کوئی ایک غلطی کرکے تو دکھاؤ 
ہر وقت آپکی ہر بات کو یہاں تولا جاتا ہے  پرکھا جاتا ہے 
آپ کی زبان سے نکالے ہر لفظ پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے
ارے تمہارے سسرال والے تو بہت اچھے ہیں
اچھے ہیں مگر کیا یہ اچھا ئی نیچرل ہے
کیا یہ اچھائی ہم عورتوں کے سر پر احسان نہیں 
کیا ہر پل اس بات کا اٌنہیں گمان نہیں کہ ہم اسکے ساتھ اچھے ہیں
کیا اب تم ہنستی کھیلتی نہیں 
کیا اب تم قہقہے مارتی نہیں 
ہاں میں یہ سب کرتی ہوں 
خود کو دبا دینے کیلئے خود کو بھول جانے کیلئے 
تم کنفیوز ہو ، تم کمزور ہو تم لاپرواہ ہو 
تم اچھی ماں نہیں 
ہاں میں اچھی ماں نہیں 
اور اگر میں ماں نہ ہوتی 
تو پھر میرا کون ہوتا
اگر میرا کوئی ہوتا تو کیا ماں نہ بننے پہ وہ مجھے طلاق دیتا؟
اگر یہاں میرا کوئی ہوتا تو کیا میری ساری جوانی محبت خلوص ایثار کے بدلے
مجھے کوئی سوتن لاکر دیتا 
مگر یہی تمہاری دنیا کا دستور ہے
وہ عورت جسکی اولاد نہ ہو اسکا کوئی نہیں ہوتا 
مگر میری اولاد تو تھی مگر کیا تمہارا بیٹا تھا؟
بیٹے کی خاطر مجھ سے بیٹیوں کی لائن لگوانے والے 
کیا یہ سب میرے اپنے ہیں؟۔۔
میں نے کمر باندھ لی بیٹیوں کا بوجھ اٌٹھانا ہے
باپ نے بیٹے کی خاطر دوسری شادی کرلی ہے 
مجھے دن رات محنت کرنی ہے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنی ہے 
مگر میرا کوئی اپنا ہوتا تو کیا مجھے یہ دن دیکھنے پڑتے؟
جب شادی کے دس سال بعد اولاد نہ ہونے پر اٌس نے مجھے واپس بھیجا تھا
جاؤ اپنے اپنوں کے پاس چلی جاؤ بانجھ عورت 
تو تم کون تھے جسے میں اپنا سمجھتی آئی تھی 
تم میرے اپنے نہیں تھے؟
نہیں اپنی تو تمہاری ماں تھی تمہارا باپ تھا جو تمہیں بانجھ ہونے کے باوجود 
گلے سے لگا لیتے
مگر میرے وہ اپنے تو ایڑیاں رگڑ کر مر گئے دس سال اور جی لیتے
اگر اٌنکی کوئی خدمت کرلیتا مگر میں روز روز اٌنکی خدمت کو کیسے جاتی 
یہ دنیا کا دستور نہیں تھا میرے بہن بھائی سب اپنے اپنے گھر بسا چکے ہیں
میرے تو دو ہی اپنے تھے مگر تمہارے ماتھے کے شکن دیکھ کر میں نے اٌن اپنوں کو چھوڑ دیا 
یہاں سب رشتے قانونی ہیں 
رشتے توخون کے ہوتے ہیں دل کے کونسے رشتے؟
جن کے پاس ایک نرم محبت کرنے والا دل نہ ہو اٌن کے ساتھ کیسے رشتے
اگر کوئی میرا اپنا ہوتا تو کیا وہ باربار مجھے حمل گرانے کی گولیاں کھلا کھلا کر میری جان لیتا؟؟
کیا اگر وہ میرا اپنا ہوتا تو میرے دنیا سے جانے کے کچھ ہی دن بعد دوسری شادی کرلیتا؟ 
جسکی پسند کے کھانے پکا پکا کے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑے اگر وہ میرا ہوتا
تو کیا میرے مرنے پر اٌسکی آنکھ ایک آنسو بھی نہ گرا ہوتا
میرا کوئی بھی نہیں تھا
مجھ سے نفرت کرنے والی ماؤں نفرت کرنا نہ چھوڑنا 
تمہاری بیٹیوں کو بھی نفرت کرنے والی مائیں ملتی رہے گے 
میں بھی اپنی کسی بیٹی سے نفرت کرتی رہوں گی
میری بیٹی سے بھی کوئی ماں نفرت کرتی رہے گی
ہم سب عورتیں مل کر نفرت نفرت کھیلتی رہیں گی
ہم کبھی اپنے دل بڑے نہیں کریں گی ہم اپنی خود دشمن بنتی رہیں گی
ہمارا کوئی نہیں بن پائے گاوو ہمارا کوئی نہیں ہے
جو میرے ہیں نہیں مگر جنہیں میں اپنا سمجھتی رہی ہوں 
وہ میرا دل توڑتے رہیں گے 
کیا کبھی وہ میرا دل جوڑ سکتے ہیں؟
کیا کبھی وہ خود میری طرف مٌڑ کر دیکھیں گے؟
نہیں دیکھیں گے
یہ میرا رونا نہیں ہے یہ میرا دکھڑا نہیں ہے 
یہ ایک عورت کا رونا ہے ایک عورت کا دکھڑا ہے 
جسے دھوکہ دیا جاتا ہے جسے فریب دیا جاتا ہے
اپنی ماں سے کبھی فون پہ بات نہ کرنا شادی کے بعد 
کبھی جو وہ تمہارے گھر آجائے تو اٌس سے بات نہ کرنے لگ جانا 
بلکہ گھر کے کاموں میں لگی رہنا اٌنہیں یہ احساس دلانا کہ اٌنہوں نے یہاں آکر تمہیں تنگ کیا
تبھی گھر بستے ہیں ، مائیں ہی گھر اٌجاڑتی ہیں
کونسا گھر؟ عورت کا کونسا گھر ہوتا ہے؟
کل مدرز ڈے منایا جائے گا مگر کیا ہم کبھی سچ بولے گے سچ سٌنے گے
لکھنے والوں جھوٹ لکھتے رہنا بولنے والوں جھوٹ بولتے رہنا 
میں کتنی ماؤں کو مرتے دیکھا ہے 
اگر اٌنہیں مرنا ہی تھا تو شاید خوشی خوشی مر جاتی 
مگر ماں یہی بولتی رہتی ہے تو اپنے گھر جا اپنے بچوں کو پال 
تیری فکر کون کرے گا ماں تجھے کون روٹی دے گا؟
تو میری فکر نہ کر تیرا بندہ بھوکا بیٹھا ہوگا تو اٌسے سنبھال
مگر کچھ دن بعد پتہ چلتا ہے کہ ماں ٹھیک نہیں تھی وہ تو جھوٹ بولتی تھی 
اگر ٹھیک ہوتی تو آج زندہ نہ ہوتی مگر تو مجھے پرائے لوگوں میں جھونکتی رہی ماں
رات کے تین بجے میری آنکھ کھولی تھی اور مجھے احساس ہوا تھا کہ تو نہیں ہے ماں
یہاں کوئی نہیں ہے میں نے تجھے بہت آوازیں دی تھی میں بہت چیخی امی امی امی
امی تم نے مجھے کہاں چھوڑدیاہے؟
یہاں میرا کوئی نہیں ہے صرف تم میری اپنی تھی 
مگر اب میرے کانوں میں کچھ سارا دن ماں ماں کی آوازیں آتی رہتی ہیں
میں خود ماں ہوں اور مجھے بھی اب ان کیلئے ویسی ماں بننا ہے جیسی تم میرے لیے بنی 

Thursday, January 19, 2017

میں خود کو بھول چکا تھا لیکن

یہ بات میرے لئے بھی ناقابل یقین ہے کہ مجھے تین سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا ہے کوئی بلاگ پوسٹ لکھے ہوئے  آخر میں کہاں کھو گئی تھی ؟  ایسا کیا حادثہ پیش آگیا تھا؟ مجھ پر کیا ٹریجیڈی بیت گئی جو دنیا سے کنارہ کر لیا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اتنے سال بلاگ نہ لکھنے کا میرے پاس کوئی جواز موجود نہیں ماسوائے اسکے کہ میں خود کو ہی بھول چکی تھی مجھے اپنا آپ کبھی یاد ہی نہیں آیا، میں نے گذشتہ کچھ سالوں میں ایک گھر بسایا خدا نے اولاد کی دولت دی، زندگی میں ٹھہراؤ آگیا مگر کہیں نہ کہیں مجھے احساس ہوتا رہا کہ میری ذات کی کھڑکیاں بند ہوتی گئی وہ کھڑکیاں جو ہمیشہ کھلی رہنی چاہیے تاکہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اندر آتے رہے اور آپکے اندر موجود گھٹن باہر کی ہوا میں گم ہوتی رہی۔ 
میں نے تین سال پہلے سوچا کیوں نہ کوئی شاہکار لکھا جائے کیوں نہ کوئی ایسی بات کی جائے جو جگ سے نرالی ہو، اور تین سال گزر جانے کے بعد بھی نہ تو کوئی شاہکار لکھا جاسکا نہ ہی کوئی جگ سے نرالی بات ذہن میں آسکی۔ میں نے اشفاق احمد کی تحریر پڑھی "چاند کا سفر" اور سوچا اب کوئی ایسی تحریر ہی لکھی جائے گی ۔میری ناقص عقل میں یہ بات نہ آسکی کہ میں کون ہوں میں کیا لکھتی ہوں میرا مقام کیا ہے۔ خود کو کیسی آزمایش میں ڈال رہی ہوں ۔ مصنف بننا مشکل ہے ،دانشور بننا مشکل کام ہے ، میں زبان دان نہیں ہوں ، دانشور بھی نہیں ہوں میں کون ہوں یہ مجھے بھی معلوم نہیں ہے ، میں کومن مین ہوں آم آدمی، مینگو پیپل، ہم ان لوگوں میں سے ہے جو تصور کرتے ہیں کہ زندگی کے ڈرامے یا فلم میں ہم مین رول ادا کریں گے اس دنیا میں ہمارا کردار بہت اہم ہوگا ہم خود کو بہت اہم سمجھتے ہیں مگر درحقیقت ہمارا کردار ایک پرستار کا ہوتا ہے جو عظیم اور عمدہ لوگوں کی محبت اور سحر میں گرفتار تو ہوتے ہیں مگر کبھی ان جیسا بن نہیں پاتے۔یہ سمجھنے میں مجھے تین سال لگ گئے کہ میں عام آدمی ہوں میں اشفاق احمد کی طرح نہیں لکھ سکتی میں ان عظیم الشان مصنفوں میں سے نہیں ہوں جنہیں میں پڑھنا پسند کرتی ہوں میری تخلیقی صلاحیتیں محدود ہیں۔ میں نے لکھنا چھوڑ دیا مگر جو بھی ہو میں پڑھنا نہیں چھوڑ سکتی ،اب کچھ یوں صورتحال ہے کہ کئی کئی دن میں کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتی مگر ان سے پیچھا بھی نہیں چھڑانا چاہتی میرے بیڈ کی سایئڈ ٹیبل پر ہمیشہ ایک کتاب موجود ہوتی ہے میں پڑھے ہوئے کو دوبارہ پڑھ لیتی ہوں۔ ہم میں سے اکثریت ایسی ہے جو فیس بک پر روز نہ جانے کتنی پوسٹس پڑھتے ہیں یعنی ریڈنگ ایک ایسی عادت ہے جو ہم چھوڑ نہیں سکتے میں بھی کبھی چھوڑ نہیں سکتی۔ مگر میں نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا؟ مجھے کسی نے یاد کیوں نہیں دلایا کہ میں لکھا کرتی تھی؟
کچھ بے ربط تحریریں ،کچھ منتشر خیالات مگر میں لکھا کرتی تھی، میں کچھ عظیم نہیں لکھ سکی کچھ سبق آموز نہیں مگر میں لکھا کرتی تھی۔ میں یا میرے جیسے بہت سے دوسرے لوگ جو خاموش ہوگئے مگر سوشل میڈیا سے بھاگ نہ سکے ،سوشل میڈیا سے بھاگا نہیں جاسکتا یہ ہماری زندگیوں کا اتنا ہی اہم حصہ بن چکا ہے جتنا فلم یا ٹی وی ۔میرے والدین سوشل میڈیا کا حصہ بن چکے ہیں کچھ سال بعد میرے بچے بھی یہ ویب سایٹس استعمال کررہے ہوں گے۔میں اکثر کہا کرتی ہوں کہ پہلے لوگ ڈایری لکھا کرتے تھے اور اب بلاگ لکھتے ہیں ہماری ڈایری البتہ ہم کسی کو پڑھانا نہیں چاہتے تھے مگر اپنا بلاگ ہم سب کو پڑھانا چاہتے ہیں ،ہم بدل چکے ہیں ہمارے معاشرے کی سوچ بدل چکی ہے اب رشتے کے لئے لڑکا لڑکی کی تصویریں نہیں بھیجی جاتی بلکہ انکے فیس بک کے پروفائل دیکھے جاتے ہیں یہ کہنا غلط نہ ہوگا ہم ایک نئے دور ایک نئے عہد میں داخل ہوچکے ہیں،ہم ان تبدیلیوں کو قبول کرچکے ہیں۔

  چلو کچھ ایسا کرتے ہیں کہ بلاگنگ کی دنیا میں دوبارہ قدم رکھتے ہیں خود کو مصروف کرتے ہیں اب میں پہلے جیسے ڈپریشن زدہ آرٹیکلز نہیں لکھ سکتی یا شاید لکھ بھی سکتی ہوں مگر یقین جانیے زندگی ہر رنگ سے زیادہ رنگین ہے،ہر موڑ پر خوبصورت ہے ان سب لوگوں کا شکریہ جو اپنی زندگیاں شیئر کرتے ہیں اور ہم خود بھی ان میں سے ایک ہے۔ ہم سوشل میڈیا پر موجود ہیں اپنی خوشیاں اور غم بانٹنے کے لئے، ایک دوسرے سے جڑے رہنے کے لئے۔ سوشل میڈیا ایک خوبصورت جگہ ہے یہاں سے فرار ممکن تو ہے مگر لازم نہیں آخر لوگوں سے دور بھاگنے کا کیا مقصد ہے ؟مگر سوشل میڈیا کا استعمال سمجھداری اور عقل و شعور سے کرنا چاہیے۔کسی پر بھی اندھا بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔اپنی سوچ کو مثبت رکھیے قدم بھی مثبت راہوں پر ہی پڑیں گے ۔میں اپنے WEIRD خیالات کے ساتھ دوبارہ پیش خدمت ہوں ۔ مگر اب میں پہلے سےزیادہ سرشار ہوں دو بچوں کی محبت میں جنہوں نے زندگی کو بالکل بدل کے رکھ دیا ہے ، جلد ہی دوبارہ ملیں گے اس ارادے کے ساتھ پوسٹ ختم کرتی ہوں کہ اب میں لکھتی رہوں گی ۔

فریحہ فاروق
19 جنوری 2017

Wednesday, September 18, 2013

وہ تیس دن ۔۔ چلڈرن ہسپتال میں

اس پوسٹ کا اعلان کرنے کے بعد میں نے کاغذ قلم اُٹھایا اور ایک روایتی قسم کا مضمون لکھ دیا جو اتنا ہی بورنگ اور تھکا ہوا تھا جتنا انڈین ٹی وی سوپ جب میں نے اُس پوسٹ کو پڑھا تو ایسے ہی لگا جیسے کوئی کبھی نہ ختم ہونے والا سوپ لکھا ہے جس کو دیکھ کر شدید اعصابی کھچاؤ پیدا ہوتا ہے اور اچھا بھلا انسان بیمار محسوس کرتا ہے یہ پوسٹ اتنی ہی بے وجہ اور بد زائقہ ہے جتنی ہمارے ٹی وی چینلز پر ہونے والے سیاسی ٹالک شوز تو آخر آپ سب یہ پوسٹ کیوں پڑھیں گے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے ویسے ہی جیسے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ آپ سب انڈین  یا پاکستانی چینلز پر سوپ کیوں دیکھتے ہیں یا ہم سب کے اباجان یہ فضول کے ٹالک شوز کیوں دیکھتے ہیں جب عوام اتنا سب کچھ برداشت کرسکتی ہے تو میری ایک بورنگ بلکہ انتہائی بورنگ بلاگ پوسٹ کیوں نہیں؟

میں نے سوچا اس پوسٹ کا آغاز انتہائی ڈرامائی ہوگا جس میں ،میں اپنے سب پڑھنے والوں پر یہ انکشاف کروں گی کہ میں تو بچی ہوں نہیں اور انتہائی طویل عرصہ گزر چکا مجھے عمر کی اس حد کو پار کئے ہوئے جس حد تک آپ چلڈرن ہسپتال میں علاج کرواسکتے ہیں یعنی وہ سب لوگ جو یہ سوچ کر بلاگ پڑھ رہے ہوں گے کہ میں نے تیس دن بطور مریض چلڈرن ہسپتال میں گزارے  ان کو انتہائی خوشگوار سرپرائز ملے گا کہ میں ہسپتال میں بیمار ہوکر نہیں گئی تھی بلکہ ٹریئننگ کی غرض سے گئی تھی اور یہ سرپرائز تو پڑھنے والوں کو چونکا دے گا کہ میں میڈیکل کے پروفیشن سے وابستہ ہوں اور اب وہ اور دلجمعی سے میرا بلاگ پڑھاکریں گے مگر افسوس مجھے جلدی عقل آگئی آخر آپ سب لوگوں کو یہ جاننے میں کیا دلچسپی ہوگی کہ میری عمر کتنی ہے میں چلڈرن کے طور پر  چلڈرن ہسپتال میں علاج کرواسکتی ہوں یا نہیں۔ میں کس پروفیشن نے وابستہ ہوں ؟کسی کو کیا فرق پڑتا ہے ان سب باتوں سے یعنی پوسٹ کا آغاز ہی ڈرامائی نہیں ہے۔
چلڈرن ہسپتال لاہور
میں آپ سب کو مزید بور کرنے کیلئے ہسپتال کی بدبو کا ذکر کرنا چاہتی تھی کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہسپتال میں سب سے زیادہ ناگوار اور کثیر تھی میں آپ سب کو اپنی پوسٹ میں بتاتی کہ ہسپتال کی  وارڈز میں جب فینائل کا کپڑا مارا جاتا ہے تو فینائل کی بدبو کیسی ہوتی ہے کتنی  ناک کو جلا دینے والی، حلق کو بند کردینے والی بدبو  اور میں آپ سب کو چلڈرن ہسپتال لاہور کی کیفے میں پھیلی ہوئی سگریٹ کی بھیانک بدبو کی کہانیاں سُناتی کہ کیسے اُس جگہ کھانا تو دور کی بات سگریٹ کے دھویئں کی بدبو سے سانس لینا بھی محال ہے مگر آپ سب لوگ ویسے ہی بور ہوتے جیسے کوئی انگریزی اخبار پڑھتے ہوئے ہوتا ہے وارڈز میں مریضوں کے بیڈز کے پاس سے آنے والی بدبو سے آپ سب کا کیا سروکار ؟ یہ سب انتہائی ناگوار باتیں آخر میں اپنے بلاگ میں کیوں لکھوں ؟

میں آپ سب کو چلڈرن ہسپتال لاہور کا جغرافیہ بتاتی یہ کہاں واقع ہے اس کی تین عمارتیں ہے ، ایڈمن بلاک ایمرجنسی بلاک اور OPD  بلاک ایک بلاک سے دوسرے بلاک میں کیسے جاتے ہیں ؟ لفٹ کی روداد سُناتی لفٹ میں آنے والے چکروں کا زکر کرتی کیسے وہ سارا دن میرا سر گھمائے رکھتے ، ہسپتال کی ایمرجنسی میں داخلہ عام عوام کے لئے کتنا مشکل ہے یہ سب بتاتی ۔مگر یہ سب بہت بورنگ باتیں ہیں میری باتیں ہسپتال سے متعلق صرف بورنگ نہیں بلکہ دکھی بھی ہوتیں جب میں آپ کو بتاتی کے چھوٹے چھوٹے بے شمار بچے جب آپ کو اپنی بیمار آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو کیسا محسوس ہوتا ہے اس بات سے آگاہی کہ یہ جو سات سال کا بچہ اپنے بیڈ پر بیٹھا اپنی ماں کے موبائل پر گیم کھیل رہا ہے اس کو بلڈ کینسر ہے اور اس کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں آپ کو کتنا دکھ دے سکتی ہے یہ سب بھی میں آپ کو بتانا چاہتی تھی، چلڈرن ہسپتال کی ایمرجنسی میں کیسے کیسے مریض آتے ہیں سب معصوم کم عمر بچے ہوتے ہیں اُن کی مایئں جب اپنے بچے کی زندگی مانگنے کے لئے ڈاکٹر کے آگے گڑگڑاتی ہیں تو کیسے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، غربت بیماری کی وجہ ہوسکتی ہے غریب لوگ کیوں سب سے زیادہ بیمار ہوتے ہیں۔ کیوں اور کتنی عورتیں اپنے بچوں کی پیدائش کے بعد ویکسینیشن نہیں کرواتی اور اُنہیں بہت سی ملحق بیماریوں کے منہ میں خود ہی ڈال دیتی ہیں ۔ یہ سب دکھی باتیں میں لکھ کر پڑھنے والوں کو مزید دکھی کیسے کروں گی یہ سب سوچتے ہوئے مجھے اپنا بلاگ مزید بور لگنے لگا ۔
ایمرجنسی
ٹی بی اور مرگی یہ دو ایسی بیماریاں ہیں جن کی ادویات تمام مریض بچوں کو ہسپتال میں مفت فراہم کی جاتی ہیں یعنی ان دونوں بیماریوں کے  مریض ہسپتال میں داخل نہ بھی ہوں تو بھی اُنہیں مفت ادویات ملتی ہیں۔ مفت دوائی ملنے کے لحاظ سے یہ دونوں بیماریوں کے مریض خوشقسمت ٹھہرتے ہیں مگر آخر یہ بیماریاں ان بچوں کو ہوتی ہی کیوں ہیں؟ آخر دنیا کی تمام بیماریاں ہی بیچارے معصوم بچوں کو کیوں ہوتی ہیں؟ کسی انسان کو بھی کیوں ہوتی ہیں ؟ کیسے پوری دنیا کو تمام بیماریوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے ؟ جب یہ سب ممکن ہی نہیں ہے تو ان سب ناممکنات کو لکھنے کا ہی کیا فائدہ آخر؟
دوست
دوست
ہسپتال کی وارڈز میں اور ایمرجنسی میں  داخل تمام مریضوں کو مفت ادویات ملتی ہیں مگر اس سہولت کو حاصل کرنے والے مریض جن وارڈز میں داخل ہوتے ہیں اُن کی حالت ناگفتہ بہ صرف اس وجہ سے ہے کہ وارڈز کے کمروں میں بدبو بہت زیادہ ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سارے مریض بچے ہیں جو بیڈ گیلا کرتے ہیں اور مایئں بھی تند و توانا نہیں ہوتی کہ بہتر طور پر سب کچھ مینج کرسکے اکثر بچے خود فرش پر یا ادھر ادھر کھیل رہے ہوتے ہیں اور اُن کی مایئں ان کے بیڈ پر لیٹی کمر سیدھی کررہی ہوتی ہیں ۔ مریضوں سے اور اُنکے لواحقین سے باتیں کرنا اُنہیں تسلی دینا کے وہ بہت جلد ٹھیک ہوجایئں گے اور کبھی کبھی کسی مریض کی ماں کو یہ بتا دینا کہ اُس کے بچے کو کیا بیماری ہے کیونکہ بچے کی دیکھ بھال کررہی اُن کی ماؤں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اُن کے بچوں کو کیا بیماری ہے ۔ایک ماں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنی بیٹی کا bone marrow test نہیں کروانا چاہتی کیونکہ اُسے بتایا گیا ہے کہ اس سے اُسکی بچی معزور ہوجائے گی اور ہم غریب لوگ ہیں ہماری بیٹی معذور ہو جائے اس سے بہتر ہے کہ خدا اُسکی زندگی چھین لے۔ یہ بات کہہ کر اس عورت نے میرے قدموں تلے زمین ضرور چھین لی ۔ہم کون لوگ ہیں ؟ غربت نے ہمیں کس حد تک مایوس اور بے حس کردیا ہے ؟ یہ سب میں کیوں لکھ رہی ہوں ؟

یہ بلاگ پوسٹ کتنی ہی بورنگ کیوں نہ ہو مگر ایک خوف آپ کو ضرور بتاتی چلو اور وہ ہے ٹی بی کا خوف ہسپتال کے OPD میں سب سے زیادہ مریض ٹی بی کے آتے ہیں ٹی بی ایک communicable disease ہے یعنی ایک انسان سے دوسرے میں پھیلتی ہے اس لئے ہسپتال میں گزارے گئے سارے دورانئیے میں اور گھر آکر بھی اس ایک بیماری نے میرے ہوش اُڑائے رکھے کہیں ہمیں تو اس کے جراثیم ۔۔۔۔ نہیں نہیں توبہ توبہ کیا کہہ رہی ہوں۔ ٹی بی کی بےشمار قسمیں ہے یہ پھیپھڑوں میں ہوسکتی ہے پیٹ میں اور یہاں تک کہ یہ جراثیم آپ کے دماغ میں بھی گھُس سکتا ہے اور دماغ کی ٹی بی بھی ہوسکتی ہے ٹی بی کے مریض  وہ تمام معصوم بچے جن سے میری ملاقات ہوئی اُن کے گھر میں کوئی نہ کوئی ایسا انسان ضرور ہوتا ہے جس کو ٹی بی ہو۔ کسی کو ماں، کسی کو باپ یا چچا یا کسی قریبی رشتہ دار سے یہ بیماری لگ جاتی ہے ۔یہ بلاگ پوسٹ ایسے ہی لمبا ہوتا چلا جائے گا جیسے پانی ڈالنے سے شوربا ۔

اس پوسٹ کے آخر میں میں ان تمام ڈاکٹروں اور نرسوں کو خراج تحسین پیش کرتی جن کو مریضوں کا علاج کرتے میں نے چلڈرن ہسپتال میں دیکھا میں آپ کو بتاتی کہ جس بدبو نے میری ناک میں دم کر رکھا، یہ سب ڈاکٹرز ان سب باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، اُنہیں وارڈز میں دن رات مریضوں کا بہترین علاج کررہے ہیں۔ پورے پنجاب کے بچے اسی ہسپتال میں آتے ہیں کیونکہ یہاں کے ڈاکٹرز اور پروفیسرز بہترین ہیں نرسیں ایک ایک بچے کا خیال رکھتی ہیں ۔مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کے باوجود کسی بھی مریض سے غفلت نہیں برتی جاتی ۔ ینگ ڈاکٹرز ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر مریضوں کا علاج کررہے ہیں یعنی ایکسٹرا کیئر مہیا کررہے ہیں ۔ میں نے ڈاکٹرز سے باتیں کیں اُن کو کام کرتے ہوئے دیکھا اُن کے کام کو سمجھا نرسز پر ڈنڈا رکھا بہت سے کمپاؤنڈرز سے ملا ڈزپنسرز سے باتیں کیں۔ یعنی کام کم باتیں سب سے زیادہ کیں اتنا سب کچھ کیا اور بور نہیں ہوئی مگر یہ سب پڑھ کر آپ ضرور بور ہوئے ہوں گے آپ سوچ رہے ہوں گے میں نے وہاں کیا سیکھا تو پہلے آپ یہ سوچیں کہ آپ نے یہ بلاگ پڑھ کر کیا سیکھا ۔کہیں آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ میرا روز ہسپتال جانے کا مقصد ہی یہ پوسٹ لکھنا تھا؟ اور میں ساری پوسٹ لکھتے ہوئے یہی سوچتی رہی کہ کہیں آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ میں ڈاکٹر ہوں اور میں آخر میں کہوں گی "خدانخواستہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں " ڈاکٹر انتہائی نیک اور محنتی  لوگ ہیں اور کیا میں نرس ہوں؟ "اللہ معاف کرے نرس بھی نہیں ہوں" نرس ایک انتہائی بلند حوصلہ والی مظبوط عورت ہوتی ہے میرا نہیں خیال میں کون ہوں یہ جاننے میں آپ کو دلچسپی ہوسکتی ہے اور اگر آپ کو غصہ آرہا ہے تو مجھے بھی یہ دیکھ کر بہت غصہ آئے گا جب کئی دن گزرنے کے بعد بھی اس پوسٹ پر کوئی comment  نہیں آئے گا اور اس کے بور اور فضول ہونے کا مجھے یقین ہوجائے گا بس کریں پڑھنا پوسٹ ختم ہوگئی ہے۔


ہسپتال کے باہر


Sunday, June 23, 2013

معاشرتی بیوایئں

عام طور پر ایسا سمجھا جاتا ہے کہ بیوہ وہ عورت ہوتی ہے جس کا خاوند مر چُکا ہو مگر کچھ بیوہ عورتیں ایسی بھی ہوتیں ہیں جنہوں نے نہ کبھی شادی کی ،نہ سُہاگ کا جوڑا پہنا اور نہ کوئی اور سکھ دیکھا مگر وہ بیوہ ہوگیئں ۔ ہندؤں کے قدیم رواج کے مطابق بیوہ عورت کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے اُس کے لئے صرف تین حُکم ہیں ایک تو یہ کہ اگر پتی کا بھائی زندہ ہے تو اُس سے بیاہ کرلے دوسرا پتی کے ساتھ ہی ست٘ی ہوجائے اور تیسرا یہ کہ اپنی ہر خواہش تیاگ دے اور سفید لباس پہن سب سے الگ جیون گُزارے ،وہ سارا دن پوجا پاٹ کرے اور کسی بھی قسم کی لذت سے لطف اندوز نہ ہوں۔ ان عورتوں کو نہ اچھا کھانا کھانے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی اچھی زندگی گُزارنے کی۔ برصغیر کا یہ ہندو معاشرہ ارتقاء کرتا رہا ،معاشرے میں تبدیلیاں آتی گیئں جن میں سب سے بڑی تبدیلی اسلام کی آمد تھی لوگ مسلمان تو ہوگئے مگر معاشرہ کس حد تک مسلمان ہوا؟
ہم سب ایک مسلم مُلک میں رہتے ہیں اور آج جہاں دنیا میں اخلاقیات کا جنازہ اُٹھ چکا ہے اور اس میں سب سے پہلی پیش قدمی عورتوں کی آزادی کی تحریک سے ہی ہوئی ہوگی ،عورتوں نے اپنی آزادی کی تحریک چلائی اور پھر معاشرہ تمام روایات و اقدار سے آزادی حاصل کرتا چلا گیا ۔ہم کہیں اور نکل گئے ہیں اپنے مدعے پر آتے ہیں ۔پاکستان جو منٹو کا ملک ہے اشفاق احمد کا ملک ہے بہت سے دانشوروں کا ملک ہے یہاں اسلام کا بول بالا تو ہے مگر کیا یہ سب صرف ظاہری طور پر ہے؟ ایک اکیلا پاکستانی مرد ،ایک اکیلی پاکستانی عورت ہمیشہ معصوم ہی ہوتے ہیں مگر جب ہماری بھیڑ بنتی ہے تو اجتماعی رویے سامنے آتے ہیں ۔ آج جو فیشن کا دور ہے ہر انسان خوبصورت اور دلکش نظر آنا چاہتا ہے مگر ہماری عورتوں میں آج بھی اتنی جراؑت دکھائی ہے کہ اپنے آپ کو ہر ایک کی آنکھ کی زینت نہیں بنایا خود کو نمایش کے لئے پیش نہیں کیا ۔ پاکستان کا شہری معاشرہ خوشحال بھی ہے اور بہت بڑی بڑی برایئوں سے پاک بھی ہے ۔مناسب لباس پہننے والا اور پاک خوراک کھانے والا یہ معاشرہ بظاہر پھل پھول بھی رہا ہے مگر اندر سے ہم کیا ہیں؟ کیا ہمارا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہوچکا ہے؟ یا اندر سے ہم آج بھی برہمن ہندو ہیں؟
جس معاشرے میں ہم آج رہتے ہیں اس میں بہت سی پابندیاں ہیں میں ہمیشہ سے یہ کہتی آئی ہوں کہ اسلام ہمیں جس بات کی اجازت دیتا ہے ہمارا مسلمان معاشرہ اس بات کی  بھی اجازت نہیں دیتا ۔اسلام میں پسند کی شادی کی ممانعت نہیں ہے مگر ہمارے مسلمان معاشرے میں اس کی سخت ممانعت ہے ۔ یہ مئسلہ کیا ہمارے اندر بسی ہندوازم کی نشاندہی نہیں کرتا؟ ہندو معاشرے میں عورتوں کو دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے اور ہمارے معاشرے میں پسند کی  شادی کی اجازت نہیں ہے ۔ ان دونوں پابندیوں کا مقصد ایک ہی ہے انسان کی شخصی آزادی کا گلہ گھونٹنا آج بھی کوئی پسند کی شادی کرنا چاہتا ہے تو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے ۔آئے دن ہم خبروں میں دیکھتے ہیں کہ پسند کی شادی کرنے پر کورٹ کیسز چل رہے ہوتے ہیں ۔پسند کی شادی کرنا بہت رسوائی کی بات سمجھی جاتی ہے اور لڑکی یا بعض اوقات لڑکی لڑکا دونوں کے گھر والے اُن سے ہر تعلق ناطہ صرف اس بات پر توڑ دیتے ہیں کہ اُنہوں نے اُن کی نافرمانی کی۔بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو پسند کی شادی کی اجازت نہ ملنے پر ساری زندگی شادی نہیں کرتے اور بیوگی کی زندگی گزار رہے ہیں اور کچھ لوگوں کو زبردستی کی شادی کی سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے اس بات سے متعلق ایک لطیفہ بھی میرے دماغ میں آرہا ہے ویسے تو قابل اعتراض  ہے مگر آج کل آزدی قلم کے زیرِ اثر کچھ بھی قابلِ اعتراض نہیں رہا تو لطیفہ یہ ہے کہ کیا پسند کی شادی کے بعد اور ارینج میریج کے بعد جو ہوتا ہے کیا اُس میں فرق ہوتا ہے؟ کیا ارینج میریج کے بعد ایک دوسرے کو ہاتھ لگائے بغیر بچے پیدا ہوجاتے ہیں ؟ کیا وہاں عزت مجروع نہیں ہوتی؟
اب آپ کہیں گے کہ پسند کی شادی کرنے والے ایک courtship period  گزارتے ہیں جو ارینج میریج کرنے والوں کو میسر نہیں آتا مگر یہ بات بھی پوری طرح درست نہیں ہے ہماری نوجوان نسل نے اسکا بھی ایک وطیرہ نکال لیا ہے آج بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز بنانے کا رواج عام ہے جس کے زریعے لڑکے لڑکیاں courtship period بھی گزار لیتے ہیں اور شادی کے لئے اپنے والدین کے آگے سر تسلیم خم کردیتے ہیں تو کیا ہم آیئڈیل معاشرے کی بنیاد رکھ رہے ہیں؟ جہاں والدین کی عزت بھی برقرار رہتی ہے اور اور نوجوانوں کی خواہشات کی آسودگی بھی ہوجاتی ہے۔ سوال پھر وہیں آکھڑا ہوتا ہے آخر ہمارے معاشرے نے لڑکی اور لڑکے کو اپنی پسند کا جیون ساتھی چُننے کی محبت کرنے کی اجازت کیوں نہ دی؟
تصویر کا ایک اور رُخ دیکھیے اور وہ ہے جہیز ۔ یہ رسم کہاں سے آئی ؟ اس کا آغاز کہاں سے ہوا کب ہوا؟ آج ہمارے ٹی وہ چینلز پر ایسے پروگرام دکھائے جاتے ہیں جن میں ایک غریب گھرانے کی لڑکی کا نکاح ٹی وی چینل والے کرواتے ہیں اور اسکے لئے سارا جہیز اور شادی کے خرچے کا انتظام کرتے ہیں اور یہ ہزاروں میں سے کوئی ایک لڑکی ہی ہوتی ہے حکومتی اور نجی سطح پر اجتماعی شادیاں بھی کروائی جاتی ہیں جن کا ایک اہم فیکٹر جہیز ہی ہوتا ہے ۔ آخر ہم نے ٹی وی پر ایسا پروگرام کیوں نہ دکھایا جس میں بغیر جہیز کے شادی ہو اور شادی کے بعد بھی لڑکے والے کبھی جہیز نہ لانے پر لڑکی کو طعنہ نہ دیں مگر افسوس ہمارے لالچی معاشرے میں یہ آیئڈیل رویہ کبھی ںہیں دیکھائی دیتا۔
سونے کے زیورات اور لاکھوں کا جہیز اگر کسی کے مقدر میں ہے تو ہی اُس کی ڈولی اُٹھ سکتی ہے ،غریب مایئں ساری عمر ایک ایک روپیہ جوڑ کر ایک دھات کا زیور خریدتی ہیں جس دھات کو سونا کہتے ہیں کہ شاید اس لالچ میں ہی کوئی باعزت انسان اُس کی بیٹی کو بیاہ کر لے جائے اور جو مایئں اس کسوٹی پر پورا نہیں اُتر سکتی اُن کی بیٹیاں لمبے انتظار کے بعد وہی زندگی گزارتیں ہیں جو بیوہ عورتیں گزارتیں ہیں ۔ ہمارے معاشرتی رویوں نے کوئی کسر باقی تو نہیں رکھی مگر پھر بھی یہ اللہ کا فضل ہی ہے جس نے آج تک ہم سب کو ڈھانپا ہوا ہے ہماری تمام تر برایئوں کے باوجود گلشن میں بہار آتی ہے خدا لوگوں کے لئے وسیلے بناتا ہے اور ہر ایک کی جو طلب ہوتی ہے وہی طلب پوری کرتا ہے مگر کیا ہم اپنے اندر بہتری نہیں لا سکتے کہ اب مزید لڑکیاں معاشرتی بیوایئں نہ بنیں؟

Monday, October 8, 2012

خوشی کا اُصول

اس پوسٹ سے قبل میں ایک بلاگ پوسٹ لکھ چُکی ہوں جس کا موضوع خوشی اور ٹایئٹل "خوشی کا راز " تھا۔ آج جو پیشِ خدمت ہے اسکا نام ہے" خوشی کا اُصول" اب آپ سوچیں گے کہ خوشی کے اُصول اور خوشی کے راز میں کیا فرق ہوگیا؟عقلمند ویسے ایسا نہیں سوچیں گے کیونکہ راز اور اُصول میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔ خوشی کے ناکام راز آپ کے سامنے پہلے ہی فاش ہوچکے ہیں اب آپ کو خوشی کے لاگو اْصولوں کا سامنا کروانے کی سعی کرتے ہیں۔
خوشی کا کیا اُصول ہوتا ہے؟
پہلے دادی اور پھر اپنے پاپا سے کہانیاں سُننے کا شوق بچپن میں میرے سر پر سوار تھا کہانیاں جو لوک داستانوں کی شکل میں ہوتی ہیں یا بادشاہوں کی کہانیاں اپنے اندر بہت گہرے راز سموئے ہوئے ہیں۔ بچپن میں دہرائی جانے والی ان کہانیوں میں ایک ایسے قصے کا بھی ذکر تھا جس کے اندر خوشی کا اُصول بیان ہوا ہے یہ ایک جابر اُصول تھا مگر کسی نہ کسی صورت میں اُصول سارے ہی جابر ہوتے ہیں۔ کہانی میں ایک ایسی ریاست کا ذکر ہے جس کے بادشاہ کا ایک ہی اُصول ہے کہ رعایا کو جیسی بھی حالت میں رکھا جائے مگر بادشاہ اُن سے روز رات کو ایک سوال ضرور پوچھے گا کہ "خوش ہو؟" اور سب نے ہاں میں ہی جواب دینا ہے کوئی بھی "نہ" میں جواب نہیں دے سکتا۔ نفی میں جواب دینے والے کو سخت سے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا ، اب بادشاہ کی ریاست میں رعایا کو دن رات کام کروایا جاتا ہے پورے دن کی مزدوری کے بعد کھانے کو ایک سوکھی روٹی اور دال دی جاتی اور پھر رات کو جب بادشاہ سلامت پوچھتے کہ "خوش ہو؟" تو سب یہی جواب دیتے کہ خوش ہیں اس ایک اُصول کی کوئی خلاف ورزی نہیں کرسکتا تھا پھر کچھ یوں ہوتا ہے کہ ایک انتہائی چالاک لڑکا بادشاہ سے بدلا لیتا ہے اور اس کا جینا محال کردیتا ہے اور ہر بار سوال پوچھتا ہے کہ "بادشاہ سلامت خوش ہیں؟" کیونکہ اُصول بادشاہ پر بھی لاگو ہوتا تھا، ریاست جیسی بھی تھی استثنیٰ سے عاری نہیں تھی تو بیچارے بادشاہ کو اپنا سب کچھ لُٹا کر بھی جواب دینا پڑتا کہ ہاں خوش ہوں، یہ پنجاب کی ایک مشہور کہانی یا قصہ ہے جو دادیاں نانیاں سُناتی ہیں میری دادی نے ہی میرے پاپا کو سُنائی پھر وہ آگے پھیلائی گئی مگر اس کہانی میں کیا سبق چُھپا ہے؟؟ تو وہ ہے خوشی کا اُصول ۔ کیا ایسا خوشی کا اُصول ہوتا ہے؟ بس دیکھ لیں۔
ہمارے گھر بھی ایک ریاست ہیں جہاں سارے گھر کی مالکن اور بادشاہ "ماں " ہوتی ہے اور ہماری عموماً سب مایئں اِسی اُصول کو اپنے لاشعور میں سمو کر اپنی اس ریاست کے امور سرانجام دے رہی ہیں ہم سب کے گھروں کا صرف ایک اُصول ہے  بادشاہ ماں ہے جس نے بغیر الفاظ کے یہ سوال پوچھتے  رہنا ہے کہ "خوش ہو؟" اور رعایا یعنی بچوں نے یہی جواب دینا ہے کہ "ہاں خوش ہیں" نہیں کہنے کا یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا "نہیں" کہنے کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟ مجھے نہیں معلوم سزا کس حد کی ہوتی ہوگی، کہاں تک ہوتی ہوگی یا ہوتی بھی ہو کہ یا نہیں مگر یہ روایت ہی نہیں ہے کہ انکار کیا جائے "نہیں" کا کوئی جواز نہیں ہے،ماں کیسی بھی پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ ، مڈل کلاس ہو یا اپر مڈل کلاس سب کی ریاست کا ایک ہی اُصول ہے "خوش ہو" "ہاں جی خوش ہیں " جو ملے خوش ہو ، نہیں ملا خوش ہو ، ماں کبھی "نہیں خوش ہوں" نہیں سُنتی اور کبھی یہ سوال پوچھتی بھی نہیں ہے کہ خوش ہو یا نہیں مگر بہانوں بہانوں میں اس کا جواب مانگتی رہتی ہے ، کوئی بھی گلہ شکوہ سُننے سے انکاری ماں ہمیشہ بچوں کو خوش ہی ماننا چاہتی ہے ، یہ خدانخواستہ کوئی برائی نہیں ہے جو یہاں بیان کی جارہی ہے نہ ہی اس کا تعلق ماں جیسی عظیم ہستی کے احسانات و محبت سے انکار ہے یہ محض رویوں کی بات ہے اور اس بات کے ایمان کی کہ میرے بچے خوش ہیں ، اب چاہے وہ خوش نہیں ہیں مگر پھر بھی وہ اس بات کا ایمان کبھی نہیں ٹوٹنے دیتیں کہ میرا بچہ خوش ہے ۔اسکا تعلق صنفی تفریق سے بھی نہیں ہے بیٹا ہو یا بیٹی ماں اِس اُصول کا استعمال دونوں پر ہی برابری سے کرتی ہے اور کبھی اس اُصول میں تفریق نہیں برتتی ، میں نے ماؤں کو اپنے بچوں کے لئے مانگتے دیکھا ، کبھی اُن کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش کے لئے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے دیکھا،کبھی اپنے بچے کے علاج کے لئے زاروقطار  روتے ہوئے دیکھا ہے ، دوسروں سے اپنے بچوں کی خاطر لڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے مگر جب بات بچے اور ماں کے درمیان کے تعلق پر آتی ہے ماں فوراً وہ بادشاہ بن جاتی ہے جسکو اپنے بچے کی "ہاں" ہی سُننی ہے ، میں نے پچھلے دنوں کچھ لوگوں کو بہت عجیب گفتگو کرتے سُنا وہ کہہ رہے تھے کہ "ماں اور خدا کے سوا کوئی انسان کے شکوے نہیں سُنتا" خدا سے شکوے کرنے کو لوگ ناشُکری قرار دیتے ہیں اور ایسی بھی  "ماں" ہے بھئی جو شکوہ سُن لیتی ہے؟ ہماری تو نہیں سُنتی یہ مزاق نہیں ہے ہماری ماؤں کا یہ ایمان ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ تم خوش نہ ہو ، شائد یہ اُصول بھی ماں نے خدا سے ہی سیکھا ہے خدا بھی بندے کو کبھی گراتا ہے کبھی اُٹھاتا ہے کبھی نواز دیتا ہے کبھی چھین لیتا ہے مگر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں خوش نہیں ہوں ، خدا کا حکم ہے کہ ہر حال میں خوش رہنا ہے یہی خوشی کا اُصول ہوتا ہے یہی ماں کا اُصول ہوتا ہے ہماری ماؤں کے لئے ہم دنیا کے خوش و خرم انسان ہیں کیونکہ اُنہوں نے جب بھی پوچھنا ہے تم خوش ہو تو "ہاں خوش ہیں" ہی جواب دینا ہے ، یہ اُصول بھی ماں بادشاہ کا اپنا بنایا ہوا ہے اور وہ لوگ جن کی ماں "نہیں خوش ہوں " سُن لیتے ہیں وہ بھی خوش قسمت انسان ہیں یہ بھی ماں کی محبت کا ایک طور ہوتا ہوگااُس کی سہہ جانے کی ایک صلاحیت ہوتی ہوگی  مگر شاید وہ اُصول سے آزاد ہوں گے خوشی کے اُصول سے آزاد ۔یہ خوشی کا اُصول جو یہاں لاگو ہے یہ ماں نے آپکو زندگی کی شاید ایک پریکٹیس کروانی ہوتی ہے تسلیم و رضا سیکھانی ہوتی ہے کہ خدا کسی بھی حال میں رکھے جواب "خوش ہوں " ہی دینا ہے۔
فریحہ فاروق
10-08-2012