Thursday, December 22, 2011

ایک محبت سو افسانے (Qurat-ul-ain)

Aik Muhabbat so Afsanay.Qurat ul ain part 1
Aik Muhabbat so Afsanay.Qurat ul ain part 2

 ڈرامے کے ایک سین میں (پارٹ 2 کا آخری حصہ میں) بیٹا اپنے باپ سے کھتا ھے کہ اگر وہ سب نہ ھوسکا جس کی آپکو اُمید ھے یا جس کی آپکو آرزو ھے تو پھر آپ کیا کریں گے  باپ جواب دیتا ھے کہ " پھر میں زندہ رھوں گا اور تب تک زندہ رھوں گا جب تک اسکا حکم ھے "
میں سوچ رھی ھوں کہ  اگر جب  تک   اُسکا حکم ھے تب تک زندہ رھنا ھے تو کیوں نہ جسطرح   اُسکا حکم ھے اُس طرح زندہ رھا جائے اگر  اُسکا ایک حکم ماننا ھے تو تمام حکم کیوں نھیں ؟ جب تک  اُسکا حکم ھے تب تک زندہ رھنے کی بجائے جس طرح زندہ رھنے کا اُسکا حکم ھے کیوں نہ اس طرح زندہ رھا جائے؟ 

Aik Muhabbat so Afsanay.Qurat ul ain part 3

Aik Muhabbat so Afsanay.Qurat ul ain part 4

Aik Muhabbat so Afsanay.Qurat ul ain part 5


 Drama :Qurat-ul-ain ( written by ashfaq ahmed)

Sunday, December 4, 2011

وہ کربلا کی رات تھی

 13 اگست 2011 رات کے 12 بجے کے بعد 14 اگست شروع ھوگئی تھی پورے شھر کے لوگ سڑکوں پر آذادی کے جشن کا مجمع لگائے بیٹھے تھے. مال روڈ پر, اسمبلی ھال تک لوگوں کی نہ ختم ھونے والی بھیڑ تھی ،کچھ آزادی کا جشن منانے اور کچھ صرف انجوائے کرنے کی غرض سے سڑکوں پہ نکلے ھوئے تھے 14 اگست شروع ھوگیا تھا اور 14 رمضان بھی تھا روزے رکھے جارھے تھے ۔ لکشمی چوک جو لاھور کا ایک بھت مشھور کھانوں کا مرکز سمجھا جاتا ھے ،وھاں سڑک کے کنارے  فٹ پاتھ پر رات کو بھت مشھور کشمیری دال چاول بکتے ھیں لوگ بھت دور دور سے یھاں دال چاول کھانے آتے ھیں کیونکہ لاھور میں بھت کم ایسی جگھیں ھیں جھاں دال چاول کوئی سوغات سمجھ کر کھائی یا بیچی جاتی ھوں
Lakshami chowk
 
فٹ پاتھ پر کرسیوں اور میزوں کی قطار لگی ھوتی ھے لوگ رات گئے تک اپنی کاروں سایکلوں موٹر سایئکلوں پر یھاں آتے رھتے ھیں اس کے سامنے پوری سڑک پ
ر بھت سے ھوٹل ھیں جھاں ٹکہ ٹک، چانپیں ،توا قیمہ ،گوشت کڑاھی ، گردے کپورے ، سیخ کباب ، تکے اور اس طرح کے بھت سے کھانوں کی نہ ختم ھونے والی لسٹ ,کے کھانے بکتے ھیں ھوٹل کے نام لینا اب ضروری نھیں ھیں کیونکہ ان کی پبلیسٹی نھیں کرنی ۔اب پورے منظر میں ،میں کھاں ھوں ؟
میں ایک سولہ سالہ لڑکا ھوں ،سڑکوں پر پڑے کوڑا کرکٹ سے کاغذ اُٹھا کر اپنی بوری میں ڈال لینے والا ،آج میں بھت بھوکا تھا صبح سے کچھ بھی کھا نے کو نہ ملا تھا بھوک سے حالت بُری تھی ۔آج سڑکوں پر رش بھت زیادہ تھا کیونکہ میرے ملک کے آزاد ھونے کا جشن ازادی  منایا جارھا تھا اور رمضان کی وجہ سے سحری تک دوکانیں بھی سجی رھنی تھیں میں بھوک سے نڈھال تھا اور ایک تنگ تاریک گلی سے نکلا اور اس سڑک پر آگیا جھاں کشمیری دال چاول بیچنے والے کی کرسیاں  لگی ھوتی ھیں۔ کچھ بھلے لوگ بیٹھے دال چاول کھا رھے تھے ، یہ ضرور میری مدد کریں گے اس سے پھلے بھی کچھ لوگوں سے کھانا مانگ چکا تھا مگر کسی نے مدد نہ کی تھی ، یہ مگر اچھے لوگ لگ رھے تھے ایک لڑکی تھی اپنے والد  کے ساتھ اور بچے بھی تھے سب رشتہ دار ھوں گے. میں صاحب کے پاس گیا بولا " سر صبح سے بھوکا ھوں ایک پلیٹ چاول خرید دیں " لڑکی نے میری طرف درد بھری نظروں سے دیکھا ، صاحب نے انکار کردیا لفظوں کا استعمال تو نھیں کیا مگر ھاتھ سے اشارہ کردیا کہ جاؤ ۔ لڑکی نے اپنے ھاتھ دیکھے کوئی بٹوا ساتھ نہ لائی تھی ،چاھتی تھی کہ اپنے والد سے اصرار کرے کہ لڑکے کو پیسے دیں دے ,بھوکا ھے سچ میں ، میں نے آواز سے اندازہ لگا لیا ھے ۔  مگر بیچاری لڑکی گونگی تھی بول نھیں سکتی تھی میرا دکھ سمجھ گئی اور خاموش مجھے دیکھنے لگی ۔

میں نے سوچا خیر ھے یہ نھیں تو کوئی اور سھی میں نے سامنے دیکھا سفید رنگ کی کار کھڑی تھی میرے بالکل پاس کوئی لاکھوں کی کار ھوگی کار میں فرنٹ سیٹ پر ایک آدمی اور ساتھ اسکی بیوی بیٹھی تھی پچھلی سیٹ پر ایک دس سال کی بچی جو یقینی طور پر انکی بیٹی معلوم ھوتی تھی ، اچھے کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ تھے ۔ میں انھیں دیکھنے لگا کہ سامنے سے ویٹر انکی ٹرے لے آیا انھوں نے ٹرے تھامی سب نے اپنی پلیٹوں سے چمچ نکال کرٹرے میں رکھ دئیے یہ کیا تھا میں نے سوچا پھر عورت نے کار کے ایک خانے میں سے پلاسٹک کے چمچ نکالے اور اور اس چمچ سے وہ کھانے لگے ۔ اچھا! اب میں سمجھ گیا کہ یہ بھت سمجھدار لوگ ھیں انھیں معلوم ھے کہ باھر کے چمچ سے نھیں کھانا چاھیے جراثیم ھوتے ھیں ،اپنی صحت کی حفاظت کرنی چاھیے صفائی کا خیال رکھنا چاھیے یہ اتنے سمجھدار ھیں تو میری مجبوری بھی سمجھیں گے. میں ان کے پاس بڑھنے لگا کہ کھانے کو کچھ مانگوں اُنھوں نے جیسے ھی مجھے اپنی طرف آتے دیکھا اچانک سے اپنی گا
ڑی کے شیشے اوپر چڑھا لئے اور میں اپنی کوڑا چُننے والی بوری اُٹھائے حیرت سے اُنھیں دیکھنے لگا .سامنے بیٹھی گونگی لڑکی بھی مجھے دیکھ رھی تھی ۔میں نے آھستہ آھستہ پیچھے قدم اُٹھائے لڑکی ابھی بھی مجھے دیکھ رھی تھی. آگے بیٹھے ھوئے کسی بھی انسان کے منہ لگنے کی ھمت نہ رھی تھی اب ، دو انکار اور ان کار والوں نے تو سُنا تک نھیں کہ میں کھنا کیا چاھتا ھوں ۔
میں بھت دکھی ھو گیا بھوک بھی ایک دم سے بھول گیئ دماغ ، حس اور جسم کا آپس میں تعلق ھی ختم ھوگیا تھا. کیا ان سب کو کوئی فرق نھیں پڑتا کہ ایک انسان بھوکا ھے اور ان سے مدد مانگ رھا ھے ۔ یہ سمجھ رھے تھے کہ میں بھیک مانگ رھا ھوں مگر میں تو کوڑے سے کاغذ چُنتا ھوں میری بوری بھی میرے ساتھ ھے. میں تو محنت کرنے والا ھوں میں نے تو صرف کھانا مانگا تھا  پیسے تو نھیں مانگے تھے, انھوں نے سوچا ھوگا ایسی جگھوں پر ھر منٹ میں ایک فقیر مانگنے آجا تا ھے ان سب انسانوں کو سمجھ ھی نہ آسکی کہ میں بھوکا ھوں ان روزہ رکھنے والوں کو آزادی کا جشن منانے والوں کو کوئی غرض نھیں تھی میری مدد کرنے سے ۔
یہ کیسی بےبسی ھے ایک مجبور بھوکا انسان اور دوسرے اسکی بات بھی سنُنا گوارہ نھیں کرتے اپنے گاڑی کا شیشہ اوپر چڑھا لیتے ھیں ۔ اس رات نے مجھے عجیب طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا .میں بھوکا تھا اور لگتا تھا کوئی بھی ایسا نھیں جو میری بات کا یقین کرے یا میری مدد کرے ۔ یہ لاھور تو نھیں تھا یہ تو کربلا تھا جھاں سب کے پاس کھانے کو کچھ نہ کچھ تھا مگر میرے لئے خوراک کا ایک زرہ بھی نہ تھا تمام یذیدیوں نے کھانے پر اپنی حکمرانی کر رکھی تھی کیا یہ چودہ اگست کا پاکستان تھا؟ کیا یہ اسلام کا سب سے مبارک مھینہ رمضان تھا؟ یہ تو صرف کربلا تھا جھاں ایک مجبور انسان تھا اور اسکی بھوک تھی ، کھیں کھانا نہ ملا تھا مجھ کو !

آج ٩ محرم الحرام ھے پورے لاھور میں جگہ جگہ مجالس ھورھی ھیں سبیلیں سجی ھیں ،لوگ پانی شربت دودھ بانٹ رھے ھیں حلیم اور بریانی کی دیگیں بانٹی جارھی ھیں آج تو یہ لاھور ھی ھے. آج یہ کربلا نھیں ھے. آج شھر میں سب کے پاس کھانے کو کچھ نہ کچھ ضرور ھے. نواں محرم ھے اور یہ کربلا نھیں ھے لاھور ھے میں بھوکا بھی نھیں ھوں ۔ میں تو بھوکا چودہ اگست ، چودہ رمضان کو تھا  اس دن آخر کیوں یہ شھر کربلا بن گیا تھا؟ اس دن کیوں شھر والے یزید لگتے تھےِ ؟ یہ میری بھوک اور مجبوری کو کیوں نھیں سمجھتے تھے؟ میں بھوکا تھا اور وہ کربلا کی رات تھی۔
( مصنف : فریحہ فاروق)
٩ محرم الحرام

Sunday, October 23, 2011

turning to an athiest !

when:
 God = Love
then:
NO Love = No God

No God = Atheist

No God of Love = Love atheist.

Find new God to restrain your-self from turning into an atheist .
it means you can find 

God of Success =  God of Respect =  God of Humanity = God of service = God of goodness = God of protection = God of Food =etc ,etc = God of All 


If you will find God by all these things than you may not turn in to a religious atheist but just a Love atheist ,the one who believes in God and the one who believes in all but fortunately the one who don't believe in Love.So here it comes a new term " Love atheist" .
Its good to be a Love atheist rather than being a God atheist because you can find God in other things of vast and diverse world. 
Thank you!
by 
Fareeha Farooq.

Monday, September 19, 2011

Not the flood victims but the flood warriors

you are not the flood victims 
you are not the flood survivors 
but you are the flood warriors ,
This time you have to fight
This time you can't just survive
This time you are going to prove 
you can fight as a warrior "Flood warriors".

those who 'll come to help you
rescue you ,Aid you
they 'll not be the only heroes for me,
I 'll not stand and clap only for them 
This time you are going to be the real heroes
you are going to receive a salute
Because you are going to fight 

you'll fight differently ,'ll show courage
you 'll show strength and unity ,
this time it will be all your "show"
You ll not just sit and wait in your camps
you will not just rely on the foreign aids.
But you 'll become a wall joining your hands 
a group of people sharing their shoulders 
you will surely help yourselves 

you are not just going to be the receiver of this aid 
you ll become the managers of this aid 
you know all the local places well
you can understand your local needs well
you are familiar to all the local people of yours
you should coalesce completely at this time 
the affected can understand the affliction to the best,

you know all and you will do all
you are going to be the real heroes
not just mere survivors of the flood 
but those who fight with such circumstances 
you 'll keep your heads high
you are important most and you 'll work most


(written by :Fareeha Farooq 
             19 september 2011) 

Thursday, September 15, 2011

Defining the status of Widow

Water film,  the film directed by Deepa Mehta,
 
  (the official trailer of the film; WATER) 

Water is a film which tries to define the status of being widow in  an insensitive society which closes all the doors of life and happiness for widows.the film describe that how some women (after death of their husbands) are subjected to inhumane and cruel behavior of the society.I just watched the film a month back and I am greatly moved by the sensitivity and emotionality captured by Deepa Mehta in this film.I am not at all intended to write a review of the film here but just its a try to make a realization that why society acts in this way with widows ,why  still after so many years and so much of international progress, in Under-develop and orthodox societies women are still treated in this way.
For me the issue of film is genuine, nothing in film is like commercial cinema; the film is about sensitivity ,reality and originality. the whole film is like a war among the outer world and inner world of a women,how a women tackle the society with so much of imposed traditions, how a women tackle her inner world ,her inside nature of living as a free and normal human being.Film is not merely an issue based film but a reality based film.
It arises question that what we actually get of those orthodox traditions which are completely unnecessary ,what advantage we (the society) can have by keeping someone deprived of a normal free life.Although the things have changed so much from the last century but still the conservative society is still intact fully  conserved somewhere inside and still deeply rooted.In the name of religion we are keeping life on this planet away from the freedom and rights ,bestowed by God.I am greatly moved by the appearance of Gandhi jee in last part of film when he narrated the lines that he used to consider that
"Ishvar hi Satayya hai"
God is truth
but his whole life changed  when he realized that 
"Satayya hi ishwar hai"
Truth is God actually.
Walk on the part of truth and you will find path directed by God ,Truth is the fact that every human being has a right to live, all human beings  are equal ,no tradition of the society can deprive one from life until he/she is alive .


Sunday, August 28, 2011

" A Beautiful Mind " A must watch film

I recently watched this film and I must claim that it is the most beautiful film I watched in last decade of my life.I always wished to see that film but never got enough time until two months back I finally experienced it. .Learn from this film ,
the way to learn
the way to live
the way to avoid and
the way to illogical things of life
 

Official Trailer of the Film 
Must watch it and learn from Dr.Nash....

A Beautiful Mind - Nobel Prize Speech - Ending Scene

Wednesday, August 24, 2011

مرزا غالب کو غم تھا کہ


سوال تو یہ تھا کہ مرزا غالب کو غم کیا تھا اور میں نے پچھلی پوسٹ میں غالب کی زندگی میں غم تلاش کرنے کی کوشش بھی بھت کی مگر میں خود کو مطمیئن نھیں کرپائی کیونکہ شاعر کی زندگی میں غم تلاش نھیں کرتے غم تو اسکی فطرت میں ھوتا ھے اور اُسے اسکی فطرت میں ھی تلاشا جاسکتا ھے غالب کی فطرت میں غم تھا .شاعر اپنی زندگی پر شاعری نھیں کرتا بلکہ شاعر تو اپنی فطرت پہ شاعری کرتا ھے جیسی اسکی نیچر ھوتی ھے ویسی ھی شاعر کی شاعری ھوتی ھے مگر غالب کی فطرت میں غم کھاں سے آیا ؟ یہ سوال کا جواب خود غالب نے عرض کیا ھے کہ
ھزاروں خواھیشیں ایسی کہ ھر خواھش پہ دم نکلے
بھت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

غالب کو کیا غم تھا؟ تو جناب غالب کو"خواھش" کاغم تھا دنیا میں کیا خواھش سے بڑا بھی کوئی غم ھوتا ھے، انسان جو خواھش کرتا ھے! اسکی فطرت ھی ایسی ھوتی ھے خواھشیں کرنا اور جب وہ پوری نھیں ھوتی تو ،تو اسکا دم نکل جاتا ھے,خواھش کے پوری نہ ھونے کے غم سے. غالب کو بھی یھی غم تھا شاید ، شاید نھیں یقینی ط
ور پر غالب کو بھی خواھش کا غم تھا ، خواھشیں کرنے کا غم انکے پورا نہ ھونے کا غم۔
کچھ دن پھلے بانو آپا نے اپنے ایک انٹرویو میں کھا تھا کہ غالب نااُمیدی کا شاعر ھے وہ مایوسی کے بغیر نھیں لکھ سکتے مگر مجھے ایسا نھیں لگتا ، میرے خیال میں غالب "خواھش" کا شاعر تھا وہ خواھش کے بغیر نھیں لکھ سکتا تھا!
 خواھش سمجھنے میں بھت مشکل چیز ھے بسا اوقات ھم اپنی ضرورتوں کو خواھش سمجھ لیتے ھیں مگر خواھش ضرورت سے مقدم ھوتی ھے ضرورتیں چیزوں سے جُڑی ھوتی ھیں جبکہ خواھشیں انسانوں سے جُڑی ھوتی ھیں ،اور انسانوں سے غم جُڑا ھوتا ھے۔ غالب کے غم کو سمجھنے کیلیے اس
کرب کو محسوس کرنا ضروری ھے جو اُس خواھش سے پیدا ھوتا ھے جو کسی انسان سے یا انسانیت سے تعلق رکھتی ھے۔اگر آپ اس غم کو سمجھ سکیں تو ھی غالب کو غم کے سمجھ پایئں گے، غالب کا غم خواھش کا غم ۔ ھم میں سے بھت سے لوگ یہ خیال کرتے ھیں کہ شاید انسان کو کچھ غلط ھونے پر ھی غم ھوتا ھے کہ بھلا یہ کیوں ھوا؟ ایسے کیوں ھوا ,میرے ساتھ ھی کیوں ھوا! مگر ایسا لازمی نھیں ھے .بعض اوقات انسان کو اس بات کا بھی غم ھوتا ھے کہ کچھ اچھا کیوں نھیں ھوا, جیسے میں نے خواھش کی ایسے کیوں نھیں ھوا، خواھش تو بڑی بُری بلا ھے یہ تو بھت درد و غم دیتی ھے انسان کو بلکہ غالب تو کھتے ھیں کہ یہ دم ھی نکال لیتی ھے. .
 صرف شب غم بری بلا نھیں ھے شدت  خواھش بھی بھت بُری بلا ھے!
(written by :Fareeha Farooq)

Wednesday, August 17, 2011

آخر مرزا غالب کو غم کیا تھا؟

ماریہ  (دوست) نے مجھ سے سوال پوچھا" آخر مرزا غالب کو غم کیا تھا" میں بھی سوچ میں پڑ گیئ کہ آخر مرزا غالب کو غم کیا تھا. مرزا غالب کے بارے میں میں صرف اتنا ھی جانتی ھوں جتنا گلزار صاحب کی بنائی ھوئی ڈرامہ سیریز "مرزا اسد الله خاں غالب" میں دکھایا گیا ھے. ایک بات تو ظاھر ھوتی ھے مرزا غالب کی شاعری سے کہ انھیں کوئی بھت بڑا غم تھا ایسے ھی کسی کے شعروں میں اتنا درد ،غم اور الم نھیں آجاتا. مگر سوال تو بھیئ یہ ھے کہ آخر غالب کو غم تھا کیا؟
 اب غیر سنجیدہ گفتگو جو ھم دونوں میں ھمیشہ جاری رھتی ھے اُس سے ھم نے نتیجے اخذ کرنے شروع کردیے کہ غالب کو آخر کیا غم تھا ۔

 
1۔ غالب کو ھوسکتا ھے یہ غم تھا کہ پنشن رُکی ھوئی تھی, ھاں ھاں ! یہ ھوگا غم ،مگر غالب کو پیسوں کا غم تھا ،پیسوں کہ غم میں کوئی کیسے لکھ سکتا ھے؟
دل ھی تو ھے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ جائے کیوں!
اتنا بڑا انسان اور پیسوں کے غم میں شاعری نہ نہ نہ یہ تو صرف مزاق تھا!
2۔ غالب کو شاید بچپن میں شادی ھوجانے کا غم تھا! یہ بھی بے تُکی بات لگتی ھے اُس دور میں یھی رواج تھا اس میں ایسی کیا غم کی بات تھی کہ دیوان لکھے جاتے ۔

3۔ غالب کو شاید اولاد نہ ھونے کا غم تھا ! یہ غم ویسے تو جایز ھے بھت بڑا غم تھا, جب سات اولادیں ھونے کے باوجود ایک بھی زندہ نہ بچے تو آدمی کو غم ھی ھوسکتا ھے مایوسی دل پر چھائی رہ سکتی ھے ,اس کا حال غالب کے چند اشعار میں معلوم بھی ھوتا ھے مگر صرف یھی ایک غم ۔۔۔
بچے ھوتے بھی تو غالب کو لکھنے نہ دیتے, سات بچے کھاں فراغت دیتے لکھنے کی !

4۔غالب کو  اس دور کے"حآلات حاضرہ" کا غم تھا یعنی اُس دور کہ سیاسی اور ریاستی بدنظمیوں اور شکستہ حالیوں کا غم تھا ! مگر اس غم میں بھی کوئی ایسا شعر تھوڑی نہ لکھ دیتا ھے!
یہ نہ تھی ھماری قسمت کہ وصال یار ھوتا
 اگر اور جیتے رھتے یھی انتطار ھوتا!
5۔ ھوسکتا ھے مرزا غالب کو شراب اور جواء تو پسند تھے مگر اسلام میں یہ منع ھیں اس بات کا غم ھو! کہ آخر کیوں منع ھیں اس لیے انھوں نے کھا تھا!
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
 شرم تم کو کیوں کر نھیں آتی!

مگر یہ بات بھی اتنا بڑا غم نھیں ھے کہ انسان غالب جیسا شاعر بن جائے !

6۔غالب کو عشق کا غم تھا! غالب کو کسی سے عشق ھوگیا تھا جیسے ھوسکتا ھے مرزا غالب کو نواب جان سے ھی عشق ھوگیا تھا اور یہ غم ان کی غزلوں اور شاعری میں چھلکتا تھا!  مگر جھاں تک گلزار نے ڈرامے میں دکھایا ھے تو صررتحال مختلف ھے۔ غالب کو نھیں بلکہ نواب جان کو غالب سے عشق ھوگیا تھا، پھر غالب کو غم کیا تھا؟
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک
 کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
7۔ غالب کو کیا غم تھا؟  
غالب کو غم تھا کہ وہ مشھور نہ ھو پائے, اپنے جیتے جی انھیں اس طرح کی مقبولیت نہ ملی جس کے وہ حقدار تھے اور اتنے بڑے شاعر ھونے کہ باوجود غالب کو ایسی تنگ دستی کی زندگی گزارنی پڑرھی تھی۔
ھر ایک بات پہ کھتے ھو تم کہ تو کیا ھے
تمھی کھو یہ انداز گفتگو کیا ھے!
مگر غالب کو کیا صرف شھرت پانے کی چاھت تھی جو پوری نہ ھونے کا غم ان کی زندگی تھا شاعری تھا !
نہ نہ نہ! غالب کو یہ بھی اتنا کوئی بڑا اور واحد غم نہ تھا!
سوال پھر وھی کا وھی ھے کہ اتنا بڑا شاعر مایوسی کا شاعر ،درد کا شاعر ،غم کا شاعر ،غم شدت کی انتھا بیان کرنے والے مرزا غالب کو کیا غم تھا؟ سوال پھر وھی کا وھی ھے،اصل میں مرزا غالب کو یہ سب غم تھے مگر کوئی ایسا غم تھا جو ان سب غموں سے مقدم تھا! وہ کیا غم تھا اس کا حل اگلی بلاگ پوسٹ میں نکالیں گے. ابھی مزید لکھنے کا  ٹایم نھیں ھے۔۔ اگلی پوسٹ تک آپ بھی زرا سوچیں ھمارے انتھائی پسندیدہ اور مشھور مرزا غالب کو درحقیقت کیا غم ھو سکتا تھا !

(written by : Fareeha Farooq)

Tuesday, July 26, 2011

Sometimes empty is also quite full!

You know “One paints”, just because he paints. No! Just because he paints with “colors” .If a painter is devoid of colors and paints how you will believe that he can paint? How you will see his ability to paint? How you will trust that he can paint the wonders? .whenever a painter paints he uses colors because with his colors and paints he can paint out his ability in something which can be seen by others and remain as a memorial of his painting ability.
Can you ever imagine a great painter but devoid of all colors and canvas to paint? Now ability is there, painter can paint but without color and canvas he paints only with a clean empty brush wherever he got a chance to paint he paints, but nothing is there to show the world, nothing is preserved in the form of painting only emptiness remains there.
I am also a painter, a painter who can paint love but I am deprived of all colors and paints of love, I am deprive of any canvas to paint love but the fact is truth that I am not deprive of the ability to paint love .I love this act of painting love, I have a brush an empty brush  with no paints and no canvas but still I paint without colors with my ability and with my empty brush
On walls of room,
On blankness of papers,
 On roofs and floors,
 On the nights away from the lights,
 On stones of mountains,
 On oceans of sand whenever and wherever I got a chance and even didn’t get a  chance I started my painting ,painting of love.
Every one curse me,
Oh! Stupid what are you doing?
I am painting love.
Where are the paints to paint love? Where is your canvas to paint? Are you mad?
Please! Let me paint, I am painting.


Painting with an empty brush with no colors and no paints without any canvas only with my ability to paint love! I can’t resist my self from painting love .Since last decade,I am painting one of the worlds most brilliant and attractive paintings, a master piece, some thing marvelous, nobody can even imagine my ability to paint this. If a sensitive person will see this he will cry out in tears, few sensible ones will smile with a sorrow in their heart but actually it can never be possible to show, no one can see this painting even no one can believe in my painting ability. this world can never see a painting without colors, even canvas is unaware of the fact that how beautifully its being painted .Whenever I will try to show my painting to this world they will say that its empty silly person! there is nothing. I know there is nothing just because I lack colors and canvas I couldn't manage them except my ability to paint love. Who cares that no one can understand this painting, no one can witness this one, and it can never be changed still. There are those who have all colors to paint love and a canvas too but they lack this ability to paint love, their paintings are just as they have poured colors simply on their canvas without any beauty without any ability. They are also deprived, deprive of the ability to paint love although they are not deprived of colors but their paintings are not of any worth and value.
I am just deprived of colors and canvas but I am painting my painting since many years with an ability to paint love. I am so much busy in doing so that I forgot that I lack colors and canvas what I remember was my act of painting .I know I have nothing I am empty handed what I will depict to this world, I will be humiliated, insulted, degraded for my empty painting of love by the people, but It cannot change my ability, my hidden ability to paint love. No one can understand this empty painting but for me it’s quite full because
Sometimes empty is also quite full.


written by:fareeha farooq
           17 June 2011.

Saturday, July 2, 2011

عرش بریں کے رشتے


ابھی جو میں لکھنے جارھی ھوں یہ میرے لئے بھی اتنی ھی عجیب بات تھی جتنی آپ لوگوں کے لئے ھوگی،پچھلے کچھ مھینوں  سے میںھیر وارث شاہپڑھ رھی ھو وھی کتاب جس کتاب میں وارث شاہ نے ھیر اور رانجھے کے قصے کو شعروں کی شکل میں ڈھالا ھے۔ قصہ چلتے چلتے اس مقام پر پھنچتا ھے جھاں ھیر کے ماں باپ ھیر کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کھیڑوں کے ھاں کررھے ھیں مگر ھیر اس بات پر بضد ھے کہ وہ رانجھے کی منگیتر ھے اور نکاح نھیں کررھی قاضی صاحب ھیر کا نکاح پڑھانے کی کوشش کررھے ھیں مگر ھیر انکار کررھی ھے قاضی اسے سمجھا رھا ھے مگر ھیر اسےجواب دیتی ھے:

"قلوب المومنین  عرش الله تعالٰی قاضی عرش خُدایئے داڈھا ناھیں
جیتھے رانجھے دے عشق مقام کیتا اوتھے کھیڑیاں دی کوئی واہ ناھیں
ایہ چڑھی گولیر میں عشق والی جیتھے ھور کوئی چاڑھ لاہ ناھیں
جس جیونے کاج ایمان ویچاں ایھاں کون جو انت فناہ ناھیں "

ترجمہ:
مومنوں کے دل الله کے عرش ھوتے ھیں ،اے قاضی خدا کے عرش کو ڈھانے کی کوشش مت کرو۔جس دل میں رانجھے کے عشق نے گھر بنا لیا ھےاس میں کھیڑوں کے لیے کوئی جگہ نھیں ھے۔میں عشق کے بُرج پر چڑھ چکی ھوں اور یہ وہ جگہ ھے جھاں پر چڑھادیا جاتا ھے لیکن یھاں سے اُترنا ممکن نھیں ھے۔ جس جیون کے لیے میں ایمان بیچوں وہ بھی تو ختم ھوجائے گا ،یھاں کون ھے جس کو فناہ نھیں ھے۔
"قالو بلا دے دن  نکاح  بدھا رُوح   نبی دی  آپ  پڑھایائے
قطب ھو وکیل وچ آ بیٹھا حکم   رب   نے   آن    کرایائے
جبرایئل  میکایئل گواہ چارے عزرایئل اسرافیل بھی آیائے
اگلا توڑ کے ھور نکاح پڑھنا آکھ رب نے کدُوں فرمایائے"
ترجمہ:
ھم دونوں( ھیر اور رانجھاکا نکاح روز الست سے ھی باندھ دیا گیا تھا اور نبی پاک کی روح نے یہ نکاح خود پڑھایا تھا۔قطب اس میں وکیل بن کر بیٹھا تھا اور یہ حکم خداوندی سے ھوا تھا،چار گواہ کے طور پر وھاں جبرایئل ،میکایئل،عزرایئل اوراسرافیل فرشتے موجود تھے۔(اے قاضی) یہ بتا تو سھی کہ پھلا نکاح توڑ کر دوسرا نکاح پڑھانے کا حکم خدا نے کب دیا ھے۔

"جیھڑے عشق دی آگ وے تاؤتتے تنھاں دوزخاں ناال کیھہ واسطہ ای
جنھاں اک دے   ناؤں  تے صدق بدھا   اُنھاں فکر اندیشڑا    کاسدا   ای
آخر صدق   یقین تے کم  پوسی   موت   چرغ   ایھہ   پتلا   ماس دا   ای
دوزخاں موریاں ملن بے صدق جھوٹھے جنھاں بان تکن آس پاس دی اے"
                                                                                                                                                        ترجمہ:
جو لوگ عشق کی آگ میں تپ رھے ھوں ان کا دوزخوں سے کیا واسطہ ھے۔جنھوں نے ایک کے نام کو صدق دل سے اختیار کیا ان کو کسی بات کی فکر نھیں ھے ۔آخر کار بات صدق یقین پر ھی ختم ھوگی کیونکہ گوشت کا یہ پُتلا تو موت کے شاھیں کا شکار ھوجائے گا ۔دوزخ میں سب سے پھلے وھی لوگ جایئں گے جو بے صدق اور جھوٹے ھوں گے اور جن کو دوسروں پر آسرا ھوگا۔             
(ھیر وارث شاہ)


ان اشعار میں وارث شاہ نے یہ عجیب منظر عشق کا بیان کیا ھے جس کے مطابق جو لوگ عشق کرتے ھیں ان کا نکاح پھلےسے ھی عرش پر ھوا ھوتا ھے ،آپ لوگ سمجھیں گے کہ یہ میں کتنی فرضی اور رومانوی بات کررھی ھوں مگر یہ میں نھیںیہ تو "وارث شاہ" جنھیں پنجابی زبان کا شیکسپیئر اور ایک عظیم ترین صوفی بزرگ سمجھا جاتا ھےوہ کھہ رھے ھیں،وارث شاہ نے ان اشعار میں محبت اور عشق کا ایک ایسا روپ پیش کیا ھے جس میں یہ تصور دیا گیا ھے کہ جو دو انسان عشق کرتے ھیں ان کا رشتہ خدا نے عرش پر ھی جوڑا ھوتا ھے ان کا نکاح پھلے سے پڑھا جاچکا ھوتا ھے اب اگر کوئی اس نکاح کو نہ مانے اور ان لوگوں کا نکاح کھیں اور کروا دے تو یہ ایسے ھی ھے کہ پھلا نکاح توڑ کر دوسرا پڑھایا جائے ،یہ بھت ھی منفرد بات ھے آج کل کے دور میں ممکن نھیں ھے کہ لوگ ایسی بات کو سمجھے مگر چونکہ عشق کا تعلق وقت اور دور سےآزاد ھے اس لیے ایک سچا عاشق ھی اس حقیقت کو جان سکتا ھے کہ جس سے اس کو عشق ھے اسکا نکاح اس سے پڑھاجاچکا ھوتا ھے۔
 
قرآن کریم میں بھی اس بات کا زکر ھے کہ الله تعالیٰ نے تمام جانداروں کو جوڑوں میں پیدا کیا ھے۔

ادب میں بھی اس طرح کی باتیں بھری پڑی ھیں
قاضی عبدالغفار اپنی کتابلیلیٰ کے خطوطمیں لیلیٰ کو قلم سے لکھتے ھیں کہ
 "کہ ھر عورت کا ایک مرد ھوتا ھے اس دنیا میں جب اس کا مرد اسے مل جاتا ھے تب وہ جانتی ھے کہ جنت دنیا کا دوسرانام ھے اس دھوکے میں مت آؤ کہ ھر مرد ھر عورت کا مرد ھوسکتا ھے ۔ابھی تک یہ فطرت کا ایک راز ھے میں تو اکثر سوچا کرتی ھوں کہ قسام ازل خود جوڑے لگا لگا کر دنیا میں بھیجتا ھے ۔پھر دنیا والے اپنی حماقت سے اس تقسیم کو غلط کردیتےھیں  اور ساری دنیا کو ماتم خانہ بنا کر احمقوں کی طرح اپنی قسمت کا گلہ کرتے ھیں !“
ان سطروں میں بھی یھی واضح کیا گیا ھے کہ جوڑے خود ازل میں تخلیق کیے گیے ھیں یہ بات میں اپنے دوستوں کو سمجھانےکی بھت کوشش کرتی ھوں مگر ھمیشہ ناکام ھی ھوتی ھوں کیونکہ آج کل کا انسان ایسی باتوں کو پسند نھیں کرتا مگر میں بس اس بات کو  یھاں ختم کرتی ھوں کہ
عشق کرنے والے ھی سمجھ سکتے ھیں کہ منکوحہ محبت کیا ھوتی ھے یہ ایک ایسی محبت ھوتی ھے جس میں نکاح پھلے سےھی  یعنی ازل سے   ھوا ھوتا ھے!
سوال تو یہ ھے کہ دنیا میں سماج والے اس نکاح کو توڑ کر دوسرا نکاح کیوں کرواتے ھیں. ھیر کا پوچھا گیا سوال آج بھی صدیوں بعد بھی ویسے ھی سامنے کھڑا ھے کیا ازل سے جُڑا رشتہ دنیا میں توڑنا جایز ھے؟ 
مصنف :فریحہ فاروق