Monday, August 13, 2012

اقبال__ میری لاگ اور لگاؤ کی نظر میں

ممتاز مفتی کی طرح میری نظر بھی لاگ اور لگاؤ سے پاک نہیں ہے میں جو بھی اس تحریر میں لکھوں گی صرف اپنی ںظر کے مطابق لکھوں گی حالانکہ یہ پوسٹ اقبال کے بارے میں ہے مگر میں اس میں سب کچھ اپنے بارے میں لکھوں گی کیونکہ ایک بلاگ پوسٹ میں اقبال کیسے سما سکتا ہے وہ بہت بڑا انسان ہے میرا اور اقبال کا تعلق اتنا محدود ہوسکتا ہے کہ ایک پوسٹ میں سما جائے مگر اقبال پر اتنی ضخیم کتابیں لکھی گئی وہ اُن میں نہ پوری طرح سما سکا میری ایک بلاگ پوسٹ میں کیا سمائے گا۔
میں نے لوگوں سے ایک سوال پوچھا ہے کہ "آپ نے اقبال کو کس عمر میں پڑھنا شروع کیا؟"۔ سب کے جوابات کے مطابق text books  میں پہلی جماعت میں ہی اقبال کی "بچے کی دعا " شامل ہے تب سے لیکر بارہویں جماعت تک ہر ایک نے نصابی کُتب میں اقبال سے ملاقات کی ہے مگر میرا سوال تھا کہ غیرنصابی اقبال کو کب پڑھنا شروع کیا ؟ خوشقسمتی سے ایسے لوگوں کی بہتات ہے ہمارے ملک میں جنہوں نے شروع عمر  سے اقبال کو پڑھا۔یہی سوال میرے سے پوچھا جائے کہ اقبال کو کس عمر میں پڑھنا شروع کیا؟ تو جواب کچھ یوں ہے کی جیسے ہی میں نے پریپ کلاس پاس کی اور میرے ماں باپ کو یقین ہوگیا کہ اب ہماری بیٹی "پہلی" جماعت میں جائے گی اُنہوں نے میرے سامنے ایک پتلی سی رسالہ نما کتاب رکھ دی ایک صفحہ کھولا گیا اور کہا گیا "آ بابا آ" والا قاعدہ پڑھ لیا ہے اب اسے پڑھ کر دکھاؤ نظم کا نام "ہمدردی" تھا میرا یقین کیجیے جن کی زندگی میں درد آنا ہوں اُن کی زندگی میں درد آنے سے پہلے اقبال کی "ہمدردی" ضرور آتی ہے ۔بامشکل پانچ سال کی عمر میں اقبال کی "بانگِ درا " سے ملاقات ہوگئی ،نظم سنائی، والدین خوش ہوگئے. کچھ ماہ بیتے ہو ں گے گھر میں ایک فریم کی ہوئی بڑی سی تصویر آگئی پوچھنے پر معلوم ہوا یہ حضرت علامہ اقبال ہیں میں حیران اور پریشان تھی یہ کیسی تصویر ہے یہ کیسا pose  ہے میں بار بار تصویر کو جاکر دیکھتی رہتی پہلے مصنف کا کلام گھر آتا ہے خدا کی مہربانی دیکھیئے پھر وہ خود ہی گھر آجاتا ہے میں نے پاپا سے پوچھا پاپا یہ علامہ اقبال کو چیل پالنے کا کیوں شوق تھا ؟ پاپا نے کہا یہ کس نے کہا ہے تمہیں ؟ میں نے جواب دیا اس تصویر میں علامہ اقبال کے پیچھے جو چیل ہے اُنہوں نے خود نہیں پالی تھی؟ یہ چیل اُنہیں کچھ کہتی نہیں تھی؟ اُنہیں اس سے ڈر نہیں لگتا تھا؟ پاپا نے چیل کا تعارف کروا دیا چیل اصل میں "شاہین" تھی اب ہر وقت گھر میں اقبال کی "سوچتے ہوئے" کی پوز تصویر بیک گراونڈ میں شاہین کے ساتھ میری توجہ کا مرکز بنی رہی گھر میں اقبال تھا تو سکول میں بھی اقبال ہی اقبال تھا۔ سکول کی اسمبلی میں سٹیج پر روز بچے ہاتھ میں موم بتی پکڑے "لب پہ آتی ہے دعا" پڑھتے ۔ PTV  پر اُنہی دنوں میں ایک نظم نشر ہوئی "پرندے کی فریاد"
"آتا ہے یاد مجھکو گزرا ہوا زمانہ وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آذادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلوں کی اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا"
یہ کیا تھا؟ زندگی میں ٹریجیڈی سے تعارف ہوگیا ۔جو قید اور آزادی کے درمیان چھُپی تھی ۔اب اقبال اور نئے طریقوں سے ملنے والے تھے اب تک میں نے صرف پُتلی تماشے ہی تھیٹر میں دیکھے تھے کہ پاپا نے کہا آج 9 نومبر ہے آج ہم الحمرا ہال میں اقبال ڈے کا شو دیکھنے جائیں گے اُس وقت میری عمر آٹھ سال تھی یہاں آکر اقبال صرف بچوں کا شاعر نہیں رہا "ایک پہاڑ اور گلہری" "ایک گائے اور بکری" ،"ماں کا خواب" صرف اقبال نہیں تھے مجھے معلوم ہورہا تھا کہ بھئی یہ اقبال تو کچھ اور ہی ہیں تقریب میں بڑے بڑے لوگوں نے بڑی بڑی تقریریں کیں جو ساری میرے سر کے اوپر سے گزر گئی مگر یہ محسوس ہوگیا کہ یہ کوئی عام شاعر نہیں ہیں پاپا نے صحیح کہا ہوگا جو تصویر گھر میں ہے اُس میں اقبال کچھ بہت بڑا سوچ رہے ہیں وہ پاکستان کے بارے میں سوچ رہے ہیں وہ پاکستان کے خواب کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
اب تو ایک سلسلہ اقبال چل نکلا میں تیسری جماعت میں پڑھتی تھی کہ ایک وفد چایئنہ سے خاص طور پر لاہور دیکھنے آیا تھا وہ سکول کے دورے کے لئے آئے مجھے حیرت ہورہی تھی کہ اب یہ چینی لوگ ہم سے کیا باتیں کریں گے انہیں اُردو بھی نہیں آتی ہوگی مگر جب وہ ہماری کلاس میں وارد ہوئے اور اُس کے بعد جوحرکت اُنہوں نے کی میں ہکابکا رہ گئی اُنہوں نے بلیک بورڈ پر اُردو لکھی اور اُردو میں لکھا تھا "شاعرِ مشرق" اور کہا بچوں کیا آپ بتا سکتے ہیں شاعرِ مشرق کون ہیں؟ یہ سوال چین کے باشندے پوچھ رہے ہیں اور ساری کلاس نے جواب دیا "علامہ اقبال" وہ سب چھ یا سات لوگ اقبال کے بہت بڑے fan  تھے اُن کے لئے لاہور کی سب سے بڑی پہچان یہی تھی۔ایک آٹھ سال کے بچے کا راسخ عقیدہ بنانے کہ لئے کے اقبال ہی شاعرِ مشرق ہیں یہ واقعہ کافی تھا یہ بہت کم واقعات ہیں میرے بچپن کے جو مجھے بہت واضح طور پر یاد ہیں غیر واضح اور بھی بہت سی یادیں ہیں جن میں اقبال کی شمولیت ہے جیسے چُھٹی کے دن شاہی قلعے جانا مزار اقبال میں حاضری دینا ۔اقبال کے بچپن کے بےتہاشا قصّے ہوں گے جوپاپا نے سُنائے جن میں سے مجھے یاد رہ گیا کہ اقبال ہمیشہ اپنی کلاس میں دیر سے آتے جب ماسٹر پوچھتا کہ اقبال دیر سے کیوں آتے ہو تو جواب دیتا "کہ اقبال ہمیشہ دیر سے ہی آتا ہے" یہی سچ ہے دوستوں کوئی بھی پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھتے بلندی پر نہیں پہنچ جاتا بلندی ہمیشہ تھوڑی دیر سے آتی ہے۔
اب سکولوں میں کیا ہوتا ہے؟ مجھے معلوم نہیں ہے مگر یہ وہ دور تھا نّوے کی دہائی کا جب اقبال ہی سکولوں میں غالب تھا پھر ایک دن جب میں پانچویں جماعت میں پڑھ رہی تھی پاپا کہتے ہیں اُردو لکھنی نہیں آتی تم لوگوں کو اِملا کیا کرو اب لکھواتے اِملا تھے مگر لفظ لکھوانے کی بجائے ایسی سوچوں اورافکار کی پٹاری کھولتے تھے کہ پُرتجسس بچوں کی زندگی کا سکون برباد ہوجائے دس سال کے بچے کو اُردو کی اِملا میں لکھواتے تھے کہ ارسطو سقراط کا شاگرد تھا اور افلاطون ارسطو کا ۔ اب بچہ سوچتا رہتا یہ ہیں کون ارسطو ، سقراط اور افلاطون۔ ایک دن ایک فتنہ لکھوادیا دس سال کی بچی کو ،ایک پیراگرف اقبال کے بارے میں کہتے ہیں یہ لکھو کہ اقبال نے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اُن کا مضمون تھا "ایران میں مابعدالطبیعات کا ارتقاء" ۔پاپا کے مطابق اس سے آسان لفظ بچوں کے لئے نہیں ہوتے میں نے پوچھا یہ کیا ہوتا ہے "مابعدلاطبیعات" کہتے ہیں "غیر مادی چیزوں کا علم" مبارک ہو زندگی میں فلسفہ آگیا کیونکہ اقبال معلوم ہوا شاعر نہیں ہے میرا مطلب شاعر تو ہیں مگر حکیم الامت درحقیقت فلسفی بھی ہیں میں کیونکہ تھوڑی لالچی انسان ہوں میرا جی چاہا کاش جیسے شاعر اقبال سے ملاقات ہوتی ہے ویسے ہی فلسفی اقبال سے ملاقات ہوتی رہے۔ اقبال سے جو ملتا اُن کا گرویدہ ہوجاتا میں بھی ہورہی تھی پھر فلسفے کا راستہ چل نکلا کچھ 11 اور 12 کی عمر انگریزی اور تھوڑا سا فلسفے کو پڑھنے میں صرف ہوگئی کہ ایک دن اچانک ظالم حکومت نے انڈین چینلز بند کردئیے جی میں سارا دن فلسفے کی کتابیں پڑھنا اور ساری رات کیبل پر انڈین ڈرامے دیکھنا پسند کرتی تھی ساتویں جماعت میں ان چینلز پر پابندی لگ گئی اب ساری شام رات ویران ہوگئی پاپا کی چالاکی کی حِس جاگی سوچا بچوں کو نئی لائن پر لگا دوں گھر میں کلیاتِ اقبال کی دو کاپیاں موجود تھیں ایک میں معنی اور تشریح بھی تھے مگر پاپا ہمیشہ بغیر معنی والوں سے پڑھاتے، سٹار پلس کے ڈراموں کو دیکھنے والا وقت اب کلیات اقبال پر پاپا کے لیکچرز سُنتے گزارا جاتا پہلی نظم جو میں نے پڑھی وہ "شکوہ" اور دوسری "جوابِ شکوہ" تھی  میں نظم پڑھتی اور پاپا مجھے ساری تشریح سُناتے جاتے۔ اسطرح چینلز کی بحالی تک کلیاتِ اقبال دو سال تک تقریبا باقاعدگی سے پاپا نے پڑھائی۔ اس کے بعد پاپا نے اقبال نہیں پڑھایا وہ مصروف ہوگئے توجہ ہی نہ دی یا بس اُن کا کام تعارف کروانا ہوتا ہے ایک چیز سے ملوا کر چھوڑ دیتے ہیں آگے کا رستہ کہتے ہیں خود طے کرو ۔ اُس کے بعد جو ہوا اُس میں وقت کی شدید کمی تھی تربیت کے 6،7 سال پورے ہوچکے تھے ماں باپ تعلیم کے حوالے کرکے بچوں کو بھول جاتے ہیں مگر کہیں بھی اقبال absent  نہیں ہوئے میری کلاس فیلوز شاعر صفت نکل آئیں میٹرک میں روز خودی پر بحثیں چھڑ جاتیں پورے دو سال میٹرک کے ہم نے اقبال کی خودی میں سر دھنسائے رکھا۔ اُس کے بعد کے حالات مجھے صاف صاف یاد نہیں ہیں میری یاداشت کی طاقت ascending  نہیں descending order  میں چلتی ہے جتنا مجھے ماضیِ بعید یاد ہے ماضی قریب اُتنا ہی دھندلا ہے مگر کچھ باتیں جو یاد رہ گئی ہیں ان میں بھی اقبال شامل ہے جیسے دسویں جماعت میں سکول کے کچھ بچوں کو اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک تقریب میں بلایا گیا میں نے وہاں پہلی مرتبہ جاوید اقبال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اقبال کا بیٹے کو دیکھنا حالانکہ یہ ایک معمولی بات تھی مگر میری عقیدت بہت زیادہ ہے اسلئے یاد رہ گئی حال میں بھی میں اُن کو دیکھا ہے اور بہت عاجز انسان پایا ہے ۔ہم نے سوچا "زندہ اقبال"تو نہیں دیکھا "زندہ جاوید" دیکھ لیا۔ ماریہ عمر اور ماریہ اقبال دونوں نے اقبال کو پڑھا ہوا تھا دونوں کے گھر کلیاتِ اقبال موجود تھی اب بھی ہے دونوں کے والدین اقبال شناس تھے اور کیا چاہیے تھا ۔مگر اقبال کا جنوں تھا سر چڑھ کر بول رہا تھا میں ساری رات
"نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی" پڑھتی
ماریہ آتی ہے کالج میں "علم اور عشق" زبانی یاد کی ہوئی ہے ایک صفحے پر لکھ کر بھی لائی ہے واہ واہ ہوتی ہے ۔اسی طرح کالج کے دن تھے یا سکول کے مجھے یاد ہی نہیں ہے وقت کے بارے میں کچھ مگر میرے گھر میں لاتعداد ایسی کتابیں نکل آتی جس میں اقبال کی شخصیت نگاری کی گئی تھی ایسی باتیں معلوم نہ ہونا بھی المیہ ہوتا ہے کہ شاعر پڑھ لیا مگر اسکی زندگی نہ پڑھی ایسے لاتعداد واقعات ہیں اقبال کی زندگی کے انسان ان کی عقل و فہم کا قائل ہوجاتا ہے ۔طلبا کا گروہ ملنے آتا ہے اقبال سے جاتےہوئے کہتا ہے سر آپ ہمیں کوئی پیغام دیجیے اور اقبال کی حِس لطافت جواب دیتی ہے کہ آج تک میں نے جو بھی لکھا ہے سب آپ نوجوانوں کے نام پیغام ہے آپ میرا پہلا پیغام تو پڑھ لیجئے پھر اور کی گزراش کریں ۔
سر سے یاد آیا کہ کیسے اقبال نے یہ شرط برٹش گورمنٹ کے سامنے رکھی کہ میرے استاد محترم سیّد میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دیجئے پھر میں "سر" کا خطاب قبول کروں گا۔ اس طرح کے ہزاروں واقعات ہیں جو کتابوں میں بھرے پڑے ہیں جنہیں کوئی بھی باآسانی پڑھ سکتا ہے۔ اقبال کی پرسنل زندگی کو جاننا اقبال کا حُقہ ،دمہّ ، بیوی اور بچے اُن کا حضرت داتا گجن بخش سے لگاؤ اقبال کا مذہب سے لگاؤ، اقبال کی ہر بات ان کی سوچ کی عکاس تھی جو سب کتابوں میں درج ہے۔ اقبال نے شاعری "پیغمبری" سمجھ کرکی۔
بارہویں جماعت کے بعد جب ہر کوئی سوچتا ہے کہ اب آگے کیا کریں گے اور یہاں مجھے فکر پڑی رہتی "اب کیا کریں گے اقوامِ مشرق" "پس چہ بائد کرد اے اقوامِ مشرق" فارسی میں تھی مگر اس کتاب کا ترجمہ انسان کو بے چین بے قرار کردیتا ہےکہ دنیا میں ہو کیا رہا ہے۔ پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ یہ کتاب ضرور پڑھئیے "حکمتِ فرعونی" ضرور پڑھیے یہ بہت سادہ اور آسان فہم کلام ہے اقبال کا۔
کچھ سال پہلے a spotlight on spotless Islam”" پڑھنے کی کوشش کی ہے یہ کتاب بھی اقبال کے فلسفہ نثر اور فلسفہ شاعری کے کھلے تضاد پر تنقید تو ضرور کرتی ہے مگر شاعری کی افاقیت اور برتری کو تسلیم کرتی ہے۔ اقبالیات پر بےتہاشا کتابیں موجود ہیں مگر ایک اچھی اور صحیح کتاب سو کتابوں پر بھاری ہوتی ہے۔ اقبال کی تصنیف "Reconstruction of Religious Thoughts in Islam”  ایک ایسی کتاب ہے جو ہم میں سے بہت سے لوگوں کی facebook  کی فیورٹ کتابوں کی لسٹ میں ہے بہت سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ یہ کتاب پڑھ چکے ہیں مگر مجھے اس بات پر شک نہیں کہ اُنہوں نے یہ کتاب پڑھی ہوئی ہے مگر اس بات پر شک ضرور ہے کہ ان سب لوگوں کو کیا یہ کتاب سمجھ بھی آئی ہے ؟کیونکہ پوری کتاب میں اقبال نے تمام بڑے بڑے فلاسفروں اور سایئنسدانوں کی تھیوریوں کا موازنہ قرآنی آیات سے کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اسلام ہی وہ واحد حقیقت ہے جو سب سے برتر ہے مگر اس کے لئے تمام مغربی فلاسفروں کی افکار اور نظریات کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آج تک اتنے سال گزرنے کے بعد بھی جدید نظریات اور سوچ کے درمیان میں عالمی لیول پر اگر آپ اسلام کا مقدمہ لڑ سکتے ہیں، اسلام کو defend  کرسکتے ہیں تو آپ کو اُس عقل کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے جو اقبال نے اس کتاب میں حل کردی ہے ۔ آج کل ایک کتاب میرے ہاتھ میں ہے جس کا نام ہے "Iqbal and post Kantian Voluntarism" جس میں تمام بڑے مغربی فلسفیوں Bergson ,Nietzsche, Goethe اور  Milton  سے اقبال کے فلسفے کا موازنہ کیا گیا ہے اور اقبال کی سوچ پر ان سب کا اثر بیان کیا گیا ہے۔" شرحِ اسرار خودی "پڑھنے کے قابل ہے "اسرارِ خودی" کا ترجمہ بہت سی زبانوں  میں کیا گیا ہے اقبال کی زندگی میں ہی اس کتاب کا انگریزی ترجمہ کر لیا گیا تھا اور بہت سے مغربی مفکر اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اقبال کے قائل تھے ۔ اقبال نے passive  تصوف کے خلاف لکھا۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اقبال صرف کتابوں تک ہی محدود ہے زندگی میں ؟ نہیں اقبال سے سوال بھی پوچھے جاتے ہیں اور اقبال جواب بھی دیتے ہیں  abnormality اور  adventure  کیوں انسان کے اندر سرایئت کیا ہوا ہے؟ اس کا جواب اقبال ہی دیتے ہیں کہ دیکھو
 "میں تراشتا ہوں ،پونجتا ہوں اور توڑ دیتا ہوں"

اقبال سے پوچھا گیا ہے کہ زندگی برباد ہوگئی ہے اب کیا کریں ؟ اس کا جواب بھی اب اقبال ہی دیں گے۔ کیا اقبال کتابوں کی دنیا سے باہر نہیں ہے؟ تو ایسا نہیں ہے آیئں real world  میں داخل ہوتے ہیں یقین کریں اقبال کہیں بھی پہنچ جاتے ہیں مثال کے طور پر پنجاب یونیورسٹی کا نام تو ہم سب نے سُنا ہی ہوا ہے اقبال یہاں بھی ہیں۔  جس کا نام ہی اقبال کے نام ہے اُس علامہ اقبال کیمپس میں "اقبال گیلری" بھی موجود ہے صبح شام آتے جاتے لوگ اقبال سے روشناس ہوتے ہیں اس گیلری میں اقبال کی زندگی کے مختلف ادوار کی یادگار تصویریں لگیں ہیں اور پوری گیلری میں پاکستان کے مشہور پینٹر "اسلم کمال" کی وہ پینٹگز لگائی گئی ہیں جن میں اسلم کمال نے اقبال کی شاعری کو تصویروں میں ڈھال دیا ہے اور ہر پینٹنگ سے متعلقہ شعر اس کے نیچے بمعہ انگریزی ترجمہ درج ہے۔اقبال کے شعروں میں گہرائی موجود ہے جو بار بار repeat  ہونے پر بھی اپنا ذرا سا بھی اثر نہیں کھوتیں ۔ گیلری کے ایک کنارے اقبال کی مغربی لباس میں تصویر ہے اور دوسرے کنارے اقبال نے مشرقی لباس اور شال اُوڑھی ہےیہ جگہ اپنی مثال آپ ہے اور اسکا سبب بھی اقبال کا سحر ہی ہے اقبال کی popularity  ہی ہے۔آیئں آپ کو یہاں کی سیّر کرواتے ہیں ۔






اقبال گیلری میں موجود پینٹنگز


















 




  ابھی اتنا بور ہونا کافی ہے مگر ایک بات یاد رکھئے یہ سب پاکستان میں ہوتا ہے اور یہ پاکستان ہے اقبال "شاعرِ مشرق" بھی ہیں اور "مفکرِپاکستان" بھی ہیں۔

 الله آپ سب کو خوش رکھے۔آمین


2 comments:

  1. اچھی تحریر ہے۔ میرے سے پہلے کسی نے کوئی تبصرہ نہیں کیا، شاید نئی نسل کو اس اقبال سے اتنی دلچسپی نہیں ہے ، وہ اس اقبال میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جس کا تعارف زید حامد کرواتا ہے خیر جیسے ان کی مرضی۔ آپ نے اقبال کو کافی پڑھا ہے میں آپ سے اقبال کے ایک شعر کا مطلب سمجھنا چاہتا ہوں ، اقبال فرماتے ہیں ، یہ زمانہ اپنے ابراہیم کی تلاش میں ، صنم کدہ ہے جہاں لاالہ الا اللہ۔ اس کا کیا مطلب ہے۔

    ReplyDelete
  2. پرانے وقتوں کی باتیں کرتی ہیں بی بی ۔ سن 1972ء کے بعد فیض احمد فیض اور دیگر دین بیزاروں کے جھنڈے گاڑے جانے لگے اور اب ذرا جا کر کسی سکول میں کسی بچے سے پوچھ لیجئے تو معلوم ہو گا کہ اقبال علامہ نہیں کو بیگانہ تھا

    اور ہاں از راہِ کرم مندرجہ ذیل اختیارِ انتخاب بحال کر دیجئے ۔ میں نے اپنے ایک بہت پرانے ربط کی مدد سے یہاں لکھا ہے
    Name/URL

    راقم الحروف
    http://www.theajmals.com

    ReplyDelete