Sunday, August 26, 2012

احساسِ کمتری


پہلی بات تو یہ کہ مجھے جتنی گزشتہ پوسٹس پر کمنٹس موصول ہورہے ہیں اُس میں لوگ کہتے ہیں "تحریراچھی ہے" حالانکہ میرا خیال ہے میری پوسٹس کو "باتیں" گردانا جائے ،جھوٹی سچی جیسی بھی ہیں یہ سب باتیں ہیں ان کو میں نے تحریر کی طرح سوچ سمجھ کر،تحقیق کرکے  نہیں لکھا conscious  ہو کر نہیں لکھا کہ کوئی تحریر لکھی جارہی ہے بس باتیں کی ہیں یا یوں کہیں کہ باتیں بنائی ہیں باتوں کی کوئی خاص زبان نہیں ہوتی کوئی طے شدہ ایجنڈا نہیں ہوتا بس ایسے جیسے کبھی سالوں پہلے لوگ خط لکھا کرتے تھے ویسے اب open letters  لکھتے ہیں اُنہیں ہم بلاگ پوسٹ کہہ دیتے ہیں یہ بھی ایک luxury ہی ہے سب سے باتیں کرنا اتنے سارے لوگ آپکی باتیں سُن رہے ہیں اس بات پر کتنی خوشی ہوتی ہے یہ باتوں کے رسیّا لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں جیسے دورانِ گفتگو ہم چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ میری بات سُن لو میری بات سُن لو یہاں پر اپنی باتیں سُنانے کے لئے آوازیں بھی نہیں لگانی پڑتیں خدا کا کرم ہوتا ہے کہ لوگ خود خوشی بخوشی آپکی باتیں سُنتے ہیں پھر سُن کر باتیں بھی نہیں سُناتے تو اتنی وضاحت کافی ہے آگے بڑھتے ہیں آج ہم آپکو آپ سب لوگوں کے بچپن کی ایک کہانی یاد دِلایئں گے آپ میں سے بہتیروں نے تو یہ کہانی سُن رکھی ہوگی اس لئے دوبارہ سُن لیجئے بہت سے ایسے بھی ہوں گے بچپن میں ایسی کہانیاں مِس ہوگئی ہوں گی جیسے مجھ سے جوانی میں بہت سی باتیں مِس ہوگئی ہیں تو بات بے بات کہانی یہ ہے کہ
"ایک کھنکھجورا تھا ،سو ٹانگوں والا کھنکھجورا جسے ہمcentipede  کہتے ہیں سارا دن اپنی خوراک تلاش کرتا ہنسی خوشی زندگی بسر کرتا ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتا کھاتا پیتا موجیں اُڑاتا پھر ایک دن کچھ یوں ہوا کہ کچھ لوگ اُسے ملنے آئے اور اُن میں سے کسی نے کھنکھجورے سے پوچھا بھئی ہم تو تمہیں دیکھ دیکھ کر محوِ حیرت ہیں ، کھنکھجورے نے پوچھا مجھ میں ایسی کیا حیرت کی بات ہے ؟ اُنہوں نے جواب دیا ہمیں حیرت ہے کہ آپ کی سو ٹانگیں ہیں اور پھر بھی بھاگے دوڑے پھرتے ہیں آخر ایسا کیوںکر ممکن ہے ؟ سو ٹانگوں کے ساتھ کوئی کیسے چل سکتا ہے؟ کھنکھجورا حیران ہوگیا بولا "کیا واقعی میری سو ٹانگیں ہیں؟ کیا واقعی میں سو ٹانگوں کے ساتھ اتنی پُھرتی سے چلتا پھرتا ہوں؟" "ہاں ہاں آپکی سو ٹانگیں ہیں" جواب سُن کر تو کھنکھجورے کا دل بیٹھ گیا کھنکھجورے کو تو کبھی معلوم ہی نہ تھا کہ اُسکی سو ٹانگیں ہیں مگر جب سے اس راز پر سے پردہ ہٹا کھنکھجورے کی ساری زندگی بدل گئی اب وہ ہر وقت یہی سوچتا کہ میں کیسے چل سکتا ہوں ؟ پہلے کونسا پاؤں اُٹھاوں دوسرا پیر پہلے اُٹھاؤں یا چھبیسواں میرا اُنتیسواں پاؤں پہلے آگے پڑنا چاہیے یا دائیں طرف کا چالیسواں ؟کیا مصیبت ہے یہ سو ٹانگوں کے ساتھ چلنا تو ناممکن ہے کھنکھجورے کو سمجھ ہی نہ آیا کہ کیسے چلا جائے اور اس دن کے بعد وہ کبھی نہ چل سکا نہ اپنی خوراک تلاش کرسکا اور وہیں پڑا پڑا مر گیا۔
یہ خود آگاہی ہوتی ہے ، لاشعور سے شعور کا سفر ہوتا ہے یا نہ جانے یہ کیا ہوتا ہے، کھنکھجورے کی یہ کہانی سب نے بچپن میں سُن رکھی ہے مگر مجھے اُس وقت یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب میرا حال بھی ویسا ہی ہوگا جو سو ٹانگوں والے کھنکھجورے کا ہوا، ہم میں سے بہت سے لوگوں کے ساتھ مجبوریوں ،کمتریوں یا کچھ الگ خصوصیا ت کی چھاپ ہوتی ہیں مگر ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا ہم بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں منصوبے بناتے ہیں مگر ایک دن کچھ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ آتے ہے اور آپکو چُپکے سے بتا جاتا ہے کہ آپکی سو ٹانگیں ہیں اب ایک سو ٹانگوں والا انسان دو ٹانگوں والے انسان کے آگے بےبس سا محسوس کرتا ہے ۔ پہلے بھی تو یہ سب مسئلے تھے پہلے بھی زندگی ایسی ہی مشکل تھی پہلے بھی حالات اور مجبوریوں نے پاؤں جکڑے ہوئے تھے مگر ہم پھر بھی دوڑے پھرتے تھے اب ہم میں جب سے خود آگاہی کا زہر گُھلا ہے ہم کچھ نہیں کر پاتے ۔میں کیسے چل سکتی ہوں ؟ خدایا میری ہی سو ٹانگیں کیوں ہیں؟
 یہ احساسِ کمتری self discovered  نہیں ہے ابھی بھی اگر ہمیں لوگ نہ بتاتے تو ہمیں کبھی معلوم ہی نہ ہوتا کہ ہماری سو ٹانگیں ہیں اس بات کا ہمیں احساس کروایا گیا ہے زبردستی ہماری آنکھیں کھولی گیئں ہیں میں گھنٹوں یہی سوچتی رہتی ہوں کہ کیا پہلے بھی سب کچھ ایسے ہی تھا ہاں پہلے بھی سب ایسے ہی تھا حقیقتیں نہیں بدلی بس اب محسوس ہونے لگیں ہیں "میں نہیں کرسکتی ، میں کیسے کرسکتی ہوں، ہا ہائے یہ میں کبھی بھی نہیں کرسکتی" بس اب یہی زندگی میں رہ گیا ہے اپنی کمزوریوں اپنی حقیقت سے سامنا کرنا بہت مشکل بات ہے مجھے اِس بات کا کبھی علم ہی نہیں تھا کہ یہ "اوقات" کیا ہوتی ہے اور اب احساسِ کمتری نے اپنی اوقات کے دندل میں پھینک دیا ہے اب ہمیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ "اپنی اوقات میں رہو" کیونکہ پہلے ہمیں اپنی اوقات یاد نہیں تھی اور اب بھولتی نہیں ہے، کیا ہم دوبارہ چل پائیں گے؟ کیا سو ٹانگوں کے ساتھ چلا جاسکتا ہے؟ کیا ہماری اوقات ہی ہماری پہچان بن جائے گی؟ لوگ ہمیں خود سے روشناس کروانے پر کیوں تُلے ہوتے ہیں؟ کیا احساسِ کمتری کے علاوہ بھی کوئی اور احساس ہوتا ہے؟ تو آخر وہ ایسے محسوس کیوں نہیں ہوتا جیسے یہ ہوتا ہے؟ دیکھتے ہیں ہم سب دیکھتے ہیں سو ٹانگوں والا کھنکھجورا کہاں تک چل پائے گا اور وہ بھی ایسا کھنکھجورا جسے اپنی سو ٹانگوں کا علم بھی ہے ، مگر کاش ہمیں خود آگاہی نہ ہوتی ہمیں خود سے متعارف ہی نہ کروایا گیا ہوتا ہم کتنا خوش تھے ،لاعلمی بھی بعض اوقات کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔

3 comments:

  1. You should have written Bulleh Shah's this sher in bottom:

    "chal bulla chal othey chaliye, jithe saare anney + naa koi saadi jaat pehchane, na koi sanu manney"

    Emaandari se khud ki personality daikh kar khud ko bhi mein vote na dalon in election. This is what i am.

    ReplyDelete
  2. دھیرے دھیرے آپ کا اندازِ تحریر نکھرتا جا رہا ہے،اللہ کرئے زورِ قلم اور زیادہ

    ReplyDelete