Sunday, June 23, 2013

معاشرتی بیوایئں

عام طور پر ایسا سمجھا جاتا ہے کہ بیوہ وہ عورت ہوتی ہے جس کا خاوند مر چُکا ہو مگر کچھ بیوہ عورتیں ایسی بھی ہوتیں ہیں جنہوں نے نہ کبھی شادی کی ،نہ سُہاگ کا جوڑا پہنا اور نہ کوئی اور سکھ دیکھا مگر وہ بیوہ ہوگیئں ۔ ہندؤں کے قدیم رواج کے مطابق بیوہ عورت کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے اُس کے لئے صرف تین حُکم ہیں ایک تو یہ کہ اگر پتی کا بھائی زندہ ہے تو اُس سے بیاہ کرلے دوسرا پتی کے ساتھ ہی ست٘ی ہوجائے اور تیسرا یہ کہ اپنی ہر خواہش تیاگ دے اور سفید لباس پہن سب سے الگ جیون گُزارے ،وہ سارا دن پوجا پاٹ کرے اور کسی بھی قسم کی لذت سے لطف اندوز نہ ہوں۔ ان عورتوں کو نہ اچھا کھانا کھانے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی اچھی زندگی گُزارنے کی۔ برصغیر کا یہ ہندو معاشرہ ارتقاء کرتا رہا ،معاشرے میں تبدیلیاں آتی گیئں جن میں سب سے بڑی تبدیلی اسلام کی آمد تھی لوگ مسلمان تو ہوگئے مگر معاشرہ کس حد تک مسلمان ہوا؟
ہم سب ایک مسلم مُلک میں رہتے ہیں اور آج جہاں دنیا میں اخلاقیات کا جنازہ اُٹھ چکا ہے اور اس میں سب سے پہلی پیش قدمی عورتوں کی آزادی کی تحریک سے ہی ہوئی ہوگی ،عورتوں نے اپنی آزادی کی تحریک چلائی اور پھر معاشرہ تمام روایات و اقدار سے آزادی حاصل کرتا چلا گیا ۔ہم کہیں اور نکل گئے ہیں اپنے مدعے پر آتے ہیں ۔پاکستان جو منٹو کا ملک ہے اشفاق احمد کا ملک ہے بہت سے دانشوروں کا ملک ہے یہاں اسلام کا بول بالا تو ہے مگر کیا یہ سب صرف ظاہری طور پر ہے؟ ایک اکیلا پاکستانی مرد ،ایک اکیلی پاکستانی عورت ہمیشہ معصوم ہی ہوتے ہیں مگر جب ہماری بھیڑ بنتی ہے تو اجتماعی رویے سامنے آتے ہیں ۔ آج جو فیشن کا دور ہے ہر انسان خوبصورت اور دلکش نظر آنا چاہتا ہے مگر ہماری عورتوں میں آج بھی اتنی جراؑت دکھائی ہے کہ اپنے آپ کو ہر ایک کی آنکھ کی زینت نہیں بنایا خود کو نمایش کے لئے پیش نہیں کیا ۔ پاکستان کا شہری معاشرہ خوشحال بھی ہے اور بہت بڑی بڑی برایئوں سے پاک بھی ہے ۔مناسب لباس پہننے والا اور پاک خوراک کھانے والا یہ معاشرہ بظاہر پھل پھول بھی رہا ہے مگر اندر سے ہم کیا ہیں؟ کیا ہمارا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہوچکا ہے؟ یا اندر سے ہم آج بھی برہمن ہندو ہیں؟
جس معاشرے میں ہم آج رہتے ہیں اس میں بہت سی پابندیاں ہیں میں ہمیشہ سے یہ کہتی آئی ہوں کہ اسلام ہمیں جس بات کی اجازت دیتا ہے ہمارا مسلمان معاشرہ اس بات کی  بھی اجازت نہیں دیتا ۔اسلام میں پسند کی شادی کی ممانعت نہیں ہے مگر ہمارے مسلمان معاشرے میں اس کی سخت ممانعت ہے ۔ یہ مئسلہ کیا ہمارے اندر بسی ہندوازم کی نشاندہی نہیں کرتا؟ ہندو معاشرے میں عورتوں کو دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے اور ہمارے معاشرے میں پسند کی  شادی کی اجازت نہیں ہے ۔ ان دونوں پابندیوں کا مقصد ایک ہی ہے انسان کی شخصی آزادی کا گلہ گھونٹنا آج بھی کوئی پسند کی شادی کرنا چاہتا ہے تو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے ۔آئے دن ہم خبروں میں دیکھتے ہیں کہ پسند کی شادی کرنے پر کورٹ کیسز چل رہے ہوتے ہیں ۔پسند کی شادی کرنا بہت رسوائی کی بات سمجھی جاتی ہے اور لڑکی یا بعض اوقات لڑکی لڑکا دونوں کے گھر والے اُن سے ہر تعلق ناطہ صرف اس بات پر توڑ دیتے ہیں کہ اُنہوں نے اُن کی نافرمانی کی۔بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو پسند کی شادی کی اجازت نہ ملنے پر ساری زندگی شادی نہیں کرتے اور بیوگی کی زندگی گزار رہے ہیں اور کچھ لوگوں کو زبردستی کی شادی کی سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے اس بات سے متعلق ایک لطیفہ بھی میرے دماغ میں آرہا ہے ویسے تو قابل اعتراض  ہے مگر آج کل آزدی قلم کے زیرِ اثر کچھ بھی قابلِ اعتراض نہیں رہا تو لطیفہ یہ ہے کہ کیا پسند کی شادی کے بعد اور ارینج میریج کے بعد جو ہوتا ہے کیا اُس میں فرق ہوتا ہے؟ کیا ارینج میریج کے بعد ایک دوسرے کو ہاتھ لگائے بغیر بچے پیدا ہوجاتے ہیں ؟ کیا وہاں عزت مجروع نہیں ہوتی؟
اب آپ کہیں گے کہ پسند کی شادی کرنے والے ایک courtship period  گزارتے ہیں جو ارینج میریج کرنے والوں کو میسر نہیں آتا مگر یہ بات بھی پوری طرح درست نہیں ہے ہماری نوجوان نسل نے اسکا بھی ایک وطیرہ نکال لیا ہے آج بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز بنانے کا رواج عام ہے جس کے زریعے لڑکے لڑکیاں courtship period بھی گزار لیتے ہیں اور شادی کے لئے اپنے والدین کے آگے سر تسلیم خم کردیتے ہیں تو کیا ہم آیئڈیل معاشرے کی بنیاد رکھ رہے ہیں؟ جہاں والدین کی عزت بھی برقرار رہتی ہے اور اور نوجوانوں کی خواہشات کی آسودگی بھی ہوجاتی ہے۔ سوال پھر وہیں آکھڑا ہوتا ہے آخر ہمارے معاشرے نے لڑکی اور لڑکے کو اپنی پسند کا جیون ساتھی چُننے کی محبت کرنے کی اجازت کیوں نہ دی؟
تصویر کا ایک اور رُخ دیکھیے اور وہ ہے جہیز ۔ یہ رسم کہاں سے آئی ؟ اس کا آغاز کہاں سے ہوا کب ہوا؟ آج ہمارے ٹی وہ چینلز پر ایسے پروگرام دکھائے جاتے ہیں جن میں ایک غریب گھرانے کی لڑکی کا نکاح ٹی وی چینل والے کرواتے ہیں اور اسکے لئے سارا جہیز اور شادی کے خرچے کا انتظام کرتے ہیں اور یہ ہزاروں میں سے کوئی ایک لڑکی ہی ہوتی ہے حکومتی اور نجی سطح پر اجتماعی شادیاں بھی کروائی جاتی ہیں جن کا ایک اہم فیکٹر جہیز ہی ہوتا ہے ۔ آخر ہم نے ٹی وی پر ایسا پروگرام کیوں نہ دکھایا جس میں بغیر جہیز کے شادی ہو اور شادی کے بعد بھی لڑکے والے کبھی جہیز نہ لانے پر لڑکی کو طعنہ نہ دیں مگر افسوس ہمارے لالچی معاشرے میں یہ آیئڈیل رویہ کبھی ںہیں دیکھائی دیتا۔
سونے کے زیورات اور لاکھوں کا جہیز اگر کسی کے مقدر میں ہے تو ہی اُس کی ڈولی اُٹھ سکتی ہے ،غریب مایئں ساری عمر ایک ایک روپیہ جوڑ کر ایک دھات کا زیور خریدتی ہیں جس دھات کو سونا کہتے ہیں کہ شاید اس لالچ میں ہی کوئی باعزت انسان اُس کی بیٹی کو بیاہ کر لے جائے اور جو مایئں اس کسوٹی پر پورا نہیں اُتر سکتی اُن کی بیٹیاں لمبے انتظار کے بعد وہی زندگی گزارتیں ہیں جو بیوہ عورتیں گزارتیں ہیں ۔ ہمارے معاشرتی رویوں نے کوئی کسر باقی تو نہیں رکھی مگر پھر بھی یہ اللہ کا فضل ہی ہے جس نے آج تک ہم سب کو ڈھانپا ہوا ہے ہماری تمام تر برایئوں کے باوجود گلشن میں بہار آتی ہے خدا لوگوں کے لئے وسیلے بناتا ہے اور ہر ایک کی جو طلب ہوتی ہے وہی طلب پوری کرتا ہے مگر کیا ہم اپنے اندر بہتری نہیں لا سکتے کہ اب مزید لڑکیاں معاشرتی بیوایئں نہ بنیں؟

6 comments:

  1. and finally you are back and you're back with a bang. very well written Fareeha hope to see more from your end and more frequently.
    stay blessed

    ReplyDelete
  2. Hazrat! Islam apko ko pasand ki shadi ki ijazat daita ha laikin yha pasand k nam pe jo kuch hta ha uski ijazat ni daita..Is k ilawa aqdar b koi cheez hoti hain..Waldain ki khushi b koi cheez hoti ha..and jo bnda shadi ni krta is liye k pasand ki shadi ni hui wo na sirf apny sath bl k apny na hony wally bacho k sath b zulam krta ha...Ye batin k Islam main iski kha gunjaish ha??

    ReplyDelete
    Replies
    1. ان سب سوالات کا جواب پوسٹ کے اندر ہی موجود ہے اگر آپ غور سے پڑھیں تو مل جایئں گے دوبارہ وہی باتیں لکھنے کا فائدہ نہیں ہے

      Delete