Sunday, December 4, 2011

وہ کربلا کی رات تھی

 13 اگست 2011 رات کے 12 بجے کے بعد 14 اگست شروع ھوگئی تھی پورے شھر کے لوگ سڑکوں پر آذادی کے جشن کا مجمع لگائے بیٹھے تھے. مال روڈ پر, اسمبلی ھال تک لوگوں کی نہ ختم ھونے والی بھیڑ تھی ،کچھ آزادی کا جشن منانے اور کچھ صرف انجوائے کرنے کی غرض سے سڑکوں پہ نکلے ھوئے تھے 14 اگست شروع ھوگیا تھا اور 14 رمضان بھی تھا روزے رکھے جارھے تھے ۔ لکشمی چوک جو لاھور کا ایک بھت مشھور کھانوں کا مرکز سمجھا جاتا ھے ،وھاں سڑک کے کنارے  فٹ پاتھ پر رات کو بھت مشھور کشمیری دال چاول بکتے ھیں لوگ بھت دور دور سے یھاں دال چاول کھانے آتے ھیں کیونکہ لاھور میں بھت کم ایسی جگھیں ھیں جھاں دال چاول کوئی سوغات سمجھ کر کھائی یا بیچی جاتی ھوں
Lakshami chowk
 
فٹ پاتھ پر کرسیوں اور میزوں کی قطار لگی ھوتی ھے لوگ رات گئے تک اپنی کاروں سایکلوں موٹر سایئکلوں پر یھاں آتے رھتے ھیں اس کے سامنے پوری سڑک پ
ر بھت سے ھوٹل ھیں جھاں ٹکہ ٹک، چانپیں ،توا قیمہ ،گوشت کڑاھی ، گردے کپورے ، سیخ کباب ، تکے اور اس طرح کے بھت سے کھانوں کی نہ ختم ھونے والی لسٹ ,کے کھانے بکتے ھیں ھوٹل کے نام لینا اب ضروری نھیں ھیں کیونکہ ان کی پبلیسٹی نھیں کرنی ۔اب پورے منظر میں ،میں کھاں ھوں ؟
میں ایک سولہ سالہ لڑکا ھوں ،سڑکوں پر پڑے کوڑا کرکٹ سے کاغذ اُٹھا کر اپنی بوری میں ڈال لینے والا ،آج میں بھت بھوکا تھا صبح سے کچھ بھی کھا نے کو نہ ملا تھا بھوک سے حالت بُری تھی ۔آج سڑکوں پر رش بھت زیادہ تھا کیونکہ میرے ملک کے آزاد ھونے کا جشن ازادی  منایا جارھا تھا اور رمضان کی وجہ سے سحری تک دوکانیں بھی سجی رھنی تھیں میں بھوک سے نڈھال تھا اور ایک تنگ تاریک گلی سے نکلا اور اس سڑک پر آگیا جھاں کشمیری دال چاول بیچنے والے کی کرسیاں  لگی ھوتی ھیں۔ کچھ بھلے لوگ بیٹھے دال چاول کھا رھے تھے ، یہ ضرور میری مدد کریں گے اس سے پھلے بھی کچھ لوگوں سے کھانا مانگ چکا تھا مگر کسی نے مدد نہ کی تھی ، یہ مگر اچھے لوگ لگ رھے تھے ایک لڑکی تھی اپنے والد  کے ساتھ اور بچے بھی تھے سب رشتہ دار ھوں گے. میں صاحب کے پاس گیا بولا " سر صبح سے بھوکا ھوں ایک پلیٹ چاول خرید دیں " لڑکی نے میری طرف درد بھری نظروں سے دیکھا ، صاحب نے انکار کردیا لفظوں کا استعمال تو نھیں کیا مگر ھاتھ سے اشارہ کردیا کہ جاؤ ۔ لڑکی نے اپنے ھاتھ دیکھے کوئی بٹوا ساتھ نہ لائی تھی ،چاھتی تھی کہ اپنے والد سے اصرار کرے کہ لڑکے کو پیسے دیں دے ,بھوکا ھے سچ میں ، میں نے آواز سے اندازہ لگا لیا ھے ۔  مگر بیچاری لڑکی گونگی تھی بول نھیں سکتی تھی میرا دکھ سمجھ گئی اور خاموش مجھے دیکھنے لگی ۔

میں نے سوچا خیر ھے یہ نھیں تو کوئی اور سھی میں نے سامنے دیکھا سفید رنگ کی کار کھڑی تھی میرے بالکل پاس کوئی لاکھوں کی کار ھوگی کار میں فرنٹ سیٹ پر ایک آدمی اور ساتھ اسکی بیوی بیٹھی تھی پچھلی سیٹ پر ایک دس سال کی بچی جو یقینی طور پر انکی بیٹی معلوم ھوتی تھی ، اچھے کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ تھے ۔ میں انھیں دیکھنے لگا کہ سامنے سے ویٹر انکی ٹرے لے آیا انھوں نے ٹرے تھامی سب نے اپنی پلیٹوں سے چمچ نکال کرٹرے میں رکھ دئیے یہ کیا تھا میں نے سوچا پھر عورت نے کار کے ایک خانے میں سے پلاسٹک کے چمچ نکالے اور اور اس چمچ سے وہ کھانے لگے ۔ اچھا! اب میں سمجھ گیا کہ یہ بھت سمجھدار لوگ ھیں انھیں معلوم ھے کہ باھر کے چمچ سے نھیں کھانا چاھیے جراثیم ھوتے ھیں ،اپنی صحت کی حفاظت کرنی چاھیے صفائی کا خیال رکھنا چاھیے یہ اتنے سمجھدار ھیں تو میری مجبوری بھی سمجھیں گے. میں ان کے پاس بڑھنے لگا کہ کھانے کو کچھ مانگوں اُنھوں نے جیسے ھی مجھے اپنی طرف آتے دیکھا اچانک سے اپنی گا
ڑی کے شیشے اوپر چڑھا لئے اور میں اپنی کوڑا چُننے والی بوری اُٹھائے حیرت سے اُنھیں دیکھنے لگا .سامنے بیٹھی گونگی لڑکی بھی مجھے دیکھ رھی تھی ۔میں نے آھستہ آھستہ پیچھے قدم اُٹھائے لڑکی ابھی بھی مجھے دیکھ رھی تھی. آگے بیٹھے ھوئے کسی بھی انسان کے منہ لگنے کی ھمت نہ رھی تھی اب ، دو انکار اور ان کار والوں نے تو سُنا تک نھیں کہ میں کھنا کیا چاھتا ھوں ۔
میں بھت دکھی ھو گیا بھوک بھی ایک دم سے بھول گیئ دماغ ، حس اور جسم کا آپس میں تعلق ھی ختم ھوگیا تھا. کیا ان سب کو کوئی فرق نھیں پڑتا کہ ایک انسان بھوکا ھے اور ان سے مدد مانگ رھا ھے ۔ یہ سمجھ رھے تھے کہ میں بھیک مانگ رھا ھوں مگر میں تو کوڑے سے کاغذ چُنتا ھوں میری بوری بھی میرے ساتھ ھے. میں تو محنت کرنے والا ھوں میں نے تو صرف کھانا مانگا تھا  پیسے تو نھیں مانگے تھے, انھوں نے سوچا ھوگا ایسی جگھوں پر ھر منٹ میں ایک فقیر مانگنے آجا تا ھے ان سب انسانوں کو سمجھ ھی نہ آسکی کہ میں بھوکا ھوں ان روزہ رکھنے والوں کو آزادی کا جشن منانے والوں کو کوئی غرض نھیں تھی میری مدد کرنے سے ۔
یہ کیسی بےبسی ھے ایک مجبور بھوکا انسان اور دوسرے اسکی بات بھی سنُنا گوارہ نھیں کرتے اپنے گاڑی کا شیشہ اوپر چڑھا لیتے ھیں ۔ اس رات نے مجھے عجیب طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا .میں بھوکا تھا اور لگتا تھا کوئی بھی ایسا نھیں جو میری بات کا یقین کرے یا میری مدد کرے ۔ یہ لاھور تو نھیں تھا یہ تو کربلا تھا جھاں سب کے پاس کھانے کو کچھ نہ کچھ تھا مگر میرے لئے خوراک کا ایک زرہ بھی نہ تھا تمام یذیدیوں نے کھانے پر اپنی حکمرانی کر رکھی تھی کیا یہ چودہ اگست کا پاکستان تھا؟ کیا یہ اسلام کا سب سے مبارک مھینہ رمضان تھا؟ یہ تو صرف کربلا تھا جھاں ایک مجبور انسان تھا اور اسکی بھوک تھی ، کھیں کھانا نہ ملا تھا مجھ کو !

آج ٩ محرم الحرام ھے پورے لاھور میں جگہ جگہ مجالس ھورھی ھیں سبیلیں سجی ھیں ،لوگ پانی شربت دودھ بانٹ رھے ھیں حلیم اور بریانی کی دیگیں بانٹی جارھی ھیں آج تو یہ لاھور ھی ھے. آج یہ کربلا نھیں ھے. آج شھر میں سب کے پاس کھانے کو کچھ نہ کچھ ضرور ھے. نواں محرم ھے اور یہ کربلا نھیں ھے لاھور ھے میں بھوکا بھی نھیں ھوں ۔ میں تو بھوکا چودہ اگست ، چودہ رمضان کو تھا  اس دن آخر کیوں یہ شھر کربلا بن گیا تھا؟ اس دن کیوں شھر والے یزید لگتے تھےِ ؟ یہ میری بھوک اور مجبوری کو کیوں نھیں سمجھتے تھے؟ میں بھوکا تھا اور وہ کربلا کی رات تھی۔
( مصنف : فریحہ فاروق)
٩ محرم الحرام

2 comments: