Saturday, April 21, 2012

زمین کے خداؤں کے نام


برصغیر پاک و ھند یعنی انڈیا اور پاکستان ایسی جگھیں ھیں جھاں بھت سے عظیم صوفیاکرام گزرے ھیں ان کے مزار بھی بنائے گئے عقیدت مندوں نے آج تک ان کے مزاروں پر باقاعدگی سے حاضریاں دی ھیں لوگ ان مزاروں پر منتیں مرادیں بھی مانگتے رھے ھیں۔ یہ صوفیاکرام خدا کے بھت زیادہ قریب تھے انھوں نے پوری زندگی فقیری کی گزاری تکالیف و مصائب برداشت کیں اور لوگوں کو فیض دیا جو مادی نھیں تھا بلکہ روحانی تھا ان میں سے کسی بزرگ کے پاس کوئی سرکاری خزانہ نھیں تھا کوئی بزرگ صحت و بجلی و پانی کا وزیر نھیں تھا  
 یہ بزرگ بیرون ملکوں میں گھوم کر چندہ اکھٹا نھیں کرتےتھے جو لوگوں میں بانٹنا ھوتا تھا کہ لوگ ان کے گُن گانے لگیں بلکہ یہ لوگ تو علم کا درس اور اخلاقیات کی دولت بانٹتے تھے انھوں نے بذات خود کبھی کسی کو کچھ نھیں دیا لیکن پھر بھی لوگوں کو انکے زریعے بھت کچھ مل جاتا تھا. 
ان صوفیاکرام نے خود کو لوگوں کیلیے خدا تک پھنچنے کا وسیلہ بنایا اور لوگوں نے بھی انکے سھارے خدا کا قرب حاصل کیا ۔آج تک کسی بزرگ اور بابا جی نے شاید ھی اپنی جیب سے کسی کو کچھ دیا ھو مگر ان لوگوں کو خدا نے بھت کچھ دیا اگر صحت مانگی توخدا نے صحت دے دی ،ان مزاروں پر جو منت مانگی گئی خدا کے دربار تک وہ ضرور پھنچی اور لوگوں کو خدا کے در سے فیض حاصل ھوا ، میں کھنا صرف یہ چاھتی ھوں کہ کوئی بھی ایسا بزرگ صوفی یا بابا نھیں تھا جس نے خود لوگوں کو کچھ دیا ھو مگر انھوں نے لوگوں کو خدا سے مانگنے کا سلیقہ ضرور سکھایا ،ان میں سے کوئی بھی بزرگ خدا نھیں تھا مگر وہ خدا کے بندے ضرور تھے اور وہ اپنے پیروکاروں کو خدا کے حضور لے  جاتے اس کے دربار میں پیش کرتے اور خدا کے دربار میں سب کی حاضری بھی ھوجاتی جسکو جو ملنا ھوتا خدا کے حضور سے ھی مل جاتا ان سب صوفیا اکرام نے لوگوں کی ملاقات عرش کے خدا سے کروائی اور آسمان پر موجود خدا ھی سب کا خدا تھا.
آج کل ھمارا یہ علاقہ صوفیاکرام تو نھیں مگر سیاست دان ضرور پیدا کرتا ھے یھاں اب لوگوں نے صوفیاکرام کی بجائے سیاستدانوں کے مزار بنانا شروع کردیے ھیں لوگ جو صوفیاکرام کے مزاروں پر حاضری دیتے تھے اب ان کے مزاروں پر بھی باقاعدگی سے حاضری دیتے ھیں مگر ان سیاستدانوں اور ھمارے صوفیاکرام میں بھت فرق ھے وہ صوفیا کرام خود کچھ نھیں دیتے تھے مگر یہ سیاستدان لوگوں کو روٹی کپڑا مکان دیتے ھیں کسی کو مفت تعلیم دیتے ھیں کسی کو ٹیکسی دیتے ھیں کسی کو زمین کا پلاٹ دیتے ھیں کسی کی محلق بیماری کا علاج کرواتے ھیں یہ زمین کے خدا بنے بیٹھے ھیں اگر یہ خود کو خدا نھیں بھی سمجھتے تو ان سے مانگنے والے ضرور انھیں خدا سمجھتے ھیں ۔ جس ملک میں کسی کا عقیدہ یہ ھوجائے کہ پیپلز پارٹی ھی ھمیں روٹی کپڑا مکان دے سکتی ھے یا نواز شریف ھی ھمیں مفت تعلیم دلوا سکتا ھے یا عمران خان ھی ھمارے کینسر کا علاج کراسکتا ھے اور آسمان پر موجود خدا کا اس میں کوئی عمل دخل نھیں تو ایسی قوم سے خدا کا لاپرواہ ھوجانا کیا لازمی امر نھیں ؟ ھم سب کو تو زمین کے خداؤں سے مانگنے کی عادت پڑ گیئ ھے ۔لوگوں آسمان کے خدا سے بھی کبھی روٹی کپڑا مکان مانگ کے دیکھ لو کیا معلوم وہ تمھیں ان سیاستدانوں سے پھلے یہ سب میسر کر دے مگر نھیں ھمیں ان سب سیاستدانوں سے اُمیدیں وابستہ کرنے کی عادت ھوگیئ ھے اب ھمیں ان زمیں کے خداؤں میں زیادہ دلچسپی ھے جھاں لوگ صوفیاکرام کی درگاھوں پر چڑھاوے چڑھاتے تھے وھاں اب لوگ ان سیاست دانوں (مردہ اور زندہ) کے مزاروں کے طواف کرتے ھیں اب حال یہ ھے کہ بھٹو کے مزار پر لوگ منتیں مانگتے ھیں مایئں اپنے بیمار بچوں کے لیے شفاء مانگنے بھی یھاں آتی ھیں ،اب لوگوں نے اپنی ساری اُمیدیں اان زمیں کے خداؤں سے وابستہ کرلیں ھیں ۔ملک کے تمام انتھایئ غریب لوگ جو کسمپرسی کی زندگی گزار رھے ھیں سب ابھی بھی پیپلز پارٹی کے ھی جیالے ھیں ایسا کیوں ھے اسکا کوئی logic نھیں ھے کیونکہ ان غرباء کو روٹی کپڑا اور مکان چاھیے اور اس دھرتی پر انکو ایک ھی خدا ایسا نظر آتا ھے جو اُنھیں محنت مزدوری کیے بنا بھیک کی صورت میں ایک ھزار روپیہ دے سکتا ھے .
اس ملک کے انتھائی امیر لوگ بھی پیپلز پارٹی کے سپورٹر اور ووٹر ھیں اور رھیں گے کیونکہ ان انتھائی امیر لوگوں کے دولت خانوں میں صرف پیسا بھرا ھونا چاھیے انھیں اسکے حلال اور حرام ھونے سے قطعی کوئی غرض نھیں ھے ۔انھیں صرف اپنے خزانوں کو دُگنا کرنے سے غرض ھے جو ان زمین کے خداؤں کے زریعے باآسانی ھو رھے ھیں دنیا کی زندگی کامیاب ھورھی ھے درمیانے طبقے کے لوگ بھی کوئی ایسے خدا کے عزیز نھیں ھیں انھوں نے بھی اپنی پارٹیوں سے ساری اُمیدیں باندھ کر خدا سے اور زندگی کی دوسری تمام جھتوں سے منہ موڑ رکھا ھے ۔ نہ جانے کب تک یہ تماشا جاری رھے گا کب تک ھم زمین کے خداؤں سے مانگتے رھیں گے کب ھم مانگنے والوں سے ماننے والے بنیں گے؟ کب ھم دوبارہ صوفیا کرام کے مزار بنایئں گے ۔ ابھی تو صرف آغاز ھے ابھی نہ جانے کتنے اور زمین کے خدا اُبھرنے ھیں اور نہ جانے مذید کتنے سالوں تک ھم ایسے ھی ان زمیں کے خداؤں سے روٹی کپڑا مکان تعلیم صحت اور بجلی اور مانگتے رھیں گے

2 comments:

  1. buhat zabardast likhay, Or kafi achay se aik aisay issue ki tarf twajuh mbzul karai ha jo k shaid hmari qoum ka shewa bn chuka ha...Urf e Aam ma isay Shirk kehtay hain jo k hmari qoum ki soch ka hissa n gya ha...wohi Bhutto sahb or benazir jo k aik siasi bnday thay ab un k mazar bn gaiy hain or log wahan pe hazri detey hain...Jin ka koi talluq hi nai tha Sufism se...

    ReplyDelete
  2. http://inspire.org.pk/blog/can-sufi-islam-be-trusted/

    ReplyDelete