Saturday, May 12, 2012

گونگے گانے ،اندھی فلمیں



  
گانے گونگے ھو جاتے ھیں فلمیں اندھی ھوجاتی ھیں ۔  یہ اتنی بڑی بات نھیں ھوتی ۔ میرے سارے گانے گونگے ھوگئے ہیں کسی بھی گانے سے آواز ہی نہیں آتی ۔آپ کا کیا مطلب ہے میں بہری ہوگئی ہوں ؟ نہیں میں بہری نہیں ہوں مجھے گانوں کے علاوہ باقی سب آوازیں تو سُنائی دیتی ہیں لوگوں کے بولنے کی آوازیں ،باتوں کی آوازیں ،ہوا کے بہنے کی آواز ، اذان کی آوازیں ،پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں ،میں سب سُن سکتی ہوں مگر گانوں میں سے آواز نہیں آتی لہذا میں تو بہری نہیں ہوئی بلکہ یہ گانے ہی گونگے ہوگئے ہیں ،یقیین جانیئے ان میں سے کسی سے کوئی آواز نہیں آتی۔
اب اگر میں کسی کو بتاتی ہوں کہ میرے گانے گونگے ہوگئے ہیں تو کسی کو سمجھ نہیں آتی کہ اس جملے کا کیا مطلب ہوتا ھے۔مگر مجھے اس حقیقت کے ساتھ جینا پڑتا ھے کہ اب میرے سارے گانے گونگے ہوگئے ہیں ۔مجھے گانوں سے ایک شدید لگا ؤ تھا ۔بہت بچپن سے لیکر کچھ سال پہلے تک میں ہر گانا سُنتی تھی مجھے میوزک بہت پسند تھا بے حساب فلمیں دیکھتی تھی یھاں تک کہ جب بھی بچپن میں ھم کہیں شھر سے باہر جاتے تھے تو میری یھی کوشش ہوتی کہ ھم ایسی بس میں جائے جس میں VCR پر فلمیں دکھائی جاتی تھیں اور یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں نرسری کلاس میں پڑھتی تھی ،گانے گانے فلمیں فلمیں بچپن سے مجھے بس یہی سب پسند تھا مگر اب کچھ عرصے سے سب بدل گیا ھے میری ساری فلمیں اندھی ہوگئی ہیں اب میں تو اندھی نہیں ہوئی کیونکہ مجھے تو سب کچھ نظر آتا ھے مگر فلمیں نظر نھیں آتی ۔ میں اندھی نہیں ہوئی یہ ساری فلمیں ہی اندھی ہوگئی ہیں ، گانے ہی گونگے ہو گئے ہیں ۔شروع شروع میں سمجھ نہیں آتی تھی کہ گانے گونگے ھوگئے ھیں گانا کب شروع ہوا کب ختم ہوا مجھے پتہ ھی نھیں چلتا تھا میں نے گانوں کو بھت ہلا ہلا کر چیک کیا کانوں سے لگایا کہ شاید آواز آجائے مگر افسوس کسی کی بھی آواز نھیں آئی ۔
English گانے ہمیشہ سے گونگے تھے اور اب بھی گونگے ہیں میرے لیئے، مگر اُردو ہندی گانے میں بہت سُنتی تھی وہ ہمیشہ سے گونگے نہیں تھے مگر اب ھوگئے ہیں دنیا میں ایسے کتنے ہی لوگ ہوں گے جن کے گانے ہمیشہ سے گونگے ہوں گے کتنے ایسے لوگ ہوں گے جن کے گانے کبھی گونگے نہیں ہوں گے اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کے گانے پہلے گونگے نہیں ہوں گے مگر پھر اچانک سے گونگے ہوگئے ہوں گے۔پاپا کے گانے بھی تو گونگے نہیں ہیں وہ بھی گانے سُنتے رھتے ہیں ۔
کچھ عرصہ  پہلے میں ایک کتاب پڑھ رہی تھی حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کی لکھی ہوئی تصوف کی پہلی کتاب "کشف الِمحجُوب" کتاب میں جھاں فقیری اختیار کرنے کا طرز بتایا گیا ھے وھاں داتا صاحب لکھتے ہیں کہ "ترک " کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ آپ خود ہی کسی چیز کو چھوڑ دو خود ہی اُسکا ذائقہ ترک کردو اور دوسرا یہ کے آپ خود تو کسی چیز کو یا luxury کو نہ چھوڑو مگر خدا خود آپ کیلیے اُس چیز کا زایقہ ترک کردے آپ خود اُس چیز کو نہیں چھوڑتے مگر خدا کی طرف سے آپکے کیلیے اُس شے کا ذائقہ ختم کردیا جاتاھے ،ہوسکتا ہے میرے ساتھ ایسا کچھ ہوگیا ھو میں نے خود گانے نہیں چھوڑے میں تو اُنہیں سُننے کی بے تہاشا کوشش کی مگر لگتا ہے انکی آواز خدا کی طرف سے ہی ختم کردی گئی ہے اب گانے ہی گونگے ہوگئے ہیں میں کیا سُنو  جب مجھے آواز ہی نہیں آتی ۔
جیسے مجھے بہت حیرت ہوتی تھی کہ جُنید جمشید کیسے گانے چھوڑ سکتا ھے ایسے کیونکر ممکن ہے ایک بندے کو میوزک سے اتنا لگاو ہو اور وہ میوزِک چھوڑ دے مگر اب شاید مجھے احساس ہوگیا ہے کہ کیسے چھوڑ سکتا تھا جب آ پ کےگانوں کا taste ہی ختم ہوجائے جب گانے ہی گونگے ہوجائے تو پھر آپ اُنہیں گاؤ   یا نہ گاؤ  کیا فرق پڑتا ہے کیا یہ تصوف ہوتا ھے؟ کیا گانے گونگے ھوجانا بہت معرفت کی بات ہوتی ہے؟
یہاں میڈیکل سایئنس کی اپنی کہانی ہے اس صورتحال کو جس میں آپ کو اپنی پسندیدہ چیزوں میں بالکل لگاو ختم ہوجائے اُسے ڈیپریشن کہتے ہیں ۔ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ مجھے schizophrenia ہوگیا ہو اور یہ سب شدید ڈیپریشن کی علامات ہیں جسے میں نے اپنی طرف سے تصوف اور معرفت کا رنگ دے دیا ہے ، میرے دوست کہتے ہیں تمہارا صرف taste بدل گیا ہے۔ یا یہ صرف ڈیپریشن کا اٹیک ہے۔مگر کیا اتنا طویل ڈیپریشن کا اٹیک ہوتا ہے؟
کیا سارے گانے گونگے ہوچکے ہیں ؟ ہاں ،مگر ہم قوالی سُنتے ہیں ساری تو نہیں مگر کوئی کوئی ،،"علی مولا علی مولا علی دم دم" یہ قوالی  ابھی گونگی نہیں ہوئی یہ میں سُن سکتی ہوں اسکی مجھے آواز بھی آتی ھے قوالیاں ابھی گونگی نہیں ہوئی ،گانے ہی گونگے ہوئے ہیں ۔کبھی کبھی مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان سب گانوں کی آواز واپس نہ آجائے ۔۔نہیں نہیں اب یہ گونگے ہی رہے ایسے ہی ٹھیک ہے ، گانے گونگے ہوجاتے ہیں ،فلمیں اندھی بھی ہوجاتی ہیں اتنی بڑی بات نہیں ہوتی ۔۔۔مجھے معلوم ہے یہ اتنی بڑی بات نہیں ہوتی ۔۔

1 comment:

  1. ارے واہ۔
    اردو میں بلاگنگ کرتی ہیں آپ۔

    ReplyDelete